ہیرے ‘‘ کفر و شرک کی تاریک وادیوں میں ضائع ہو رہے تھے۔ خدائے رحمن عَزَّوَجَلَّ کی شانِ بے نیازی پہ قربان کہ جس نے مجھ نکمّے اور کھوٹے کو اسلام کی دولت عطا فرمائی۔ میرے قبولِ اسلام کا سبب دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ایک مبلغ اسلامی بھائی بنے، ہوا کچھ یوں کہ ایک دن میری ملاقات اس سبز عمامہ سجائے مبلغِ دعوتِ اسلامی سے ہو گئی۔وہ اسلامی بھائی مجھے جانتے نہیں تھے ، دورانِ گفتگو جب میں نے اپنا غیر مسلم ہونا ظاہر کیا تو ان کا رنگ ایک دم پھیکا پڑ گیا، ان کے چہرے پر غم کے آثار نمایاں تھے۔ اس اسلامی بھائی نے نہایت درد بھرے انداز میں اسلام کی عظمت اس کے نمایاں پہلو اور مساوات کے بارے میں بتایا کہ اسلام میں کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے یہ میرے بہت بڑے خیر خواہ ہیں ، ان کے دلکش اور لجاجت بھرے انداز نے میرا دل مُوہ لیا۔ ان کی پُر تاثیر گفتگو سے میں بے حد متأثر ہوا کیونکہ آج تک اس انداز میں اسلام کے متعلق کسی نے نہیں سمجھایا تھا نیز اُن کے حُسنِ اخلاق اور ملنساری کے انداز نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ نجات اِسی راستے پر چلنے میں ہے چنانچہ میں نے اسی اسلامی بھائی کے ہاتھ پر 12 جولائی 2006 کو کَلِمَۂ طَیِّبَہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ پڑھا اور اسلام قبول کر لیا۔ میری خوش نصیبی کہ اسلام قبول کرنے کے کچھ ہی دنوں بعد دعوتِ اسلامی کے