دینِ اسلام کی تعلیمات سے متأثر ہو کر اپنے علاقے کے ایک جیّدعالمِ دین کی خدمت میں حاضر ہوا اور کفر و شرک سے توبہ کرکے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔ ایمان کی عظیم دولت ملنے پر میں شاداں و فرحاں تھا لیکن فرائض و واجبات اور دیگر احکام سیکھنے کی فکر بھی لاحق ہو چکی تھی۔ نیز اسلام کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا تھامگر کچھ مسائل کی وجہ سے شَش و پنج کا شکار ہو گیا۔ ایسے میں مجھے ایک اچھے ماحول کی تلاش تھی جو اس معاملے میں میری رہنمائی اور مُعاوَنَت کرے۔ اسی دوران خوش قسمتی سے مجھے دعوتِ اسلامی کا مہکا مہکا مدنی ماحول میسر آگیا، جس کی بدولت میری زندگی میں مثبت تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ پھر شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العَالِیہ کی تالیف ’’فیضانِ سنّت‘‘ کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا جس کے ذریعے مجھے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العَالِیہ اور دعوتِ اسلامی کا تعارف ہوا۔ امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ العَالِیہ کی خوفِ خدا اور عشقِ مصطفی سے لبریز تحریر پڑھ کر مجھ پر یہ بات آشکار ہو گئی کہ عالمِ اسلام میں اہلسنّت و جماعت ہی اسلام کی تعلیمات پر صحیح طورپر عمل پیرا ہے۔ جوں جوں میں فیضانِ سنّت کا مطالعہ کرتا گیا اس کی برکت سے نہ صرف میرے اَخلاق و کردار میں نکھار آتا گیا بلکہ رفتہ رفتہ میں فرائض و