Brailvi Books

باکردار عطاری
10 - 32
 بوجھل قدموں ایک جانب چل دیا مگر پیٹ کی فریاد نے ایک بار پھر مجبور کیا تو قسمت آزمائی کے لئے اب کی بار ایک ہوٹل پر جا پہنچا۔ میں نے پھر ڈگمگاتے ہوئے اپنی آپ بیتی ہوٹل کے مالک کو سنائی مگر اُس نے بھی پہلے دکاندار کی طرح ذلت آمیز جملوں سے میری خاطر تواضع کی۔ بے بسی کے سبب میری پلکیں بھیگ گئیں۔ خدا عَزَّوَجَلَّ کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی دوران ایک جاننے والے سے ملاقات ہو گئی اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا: تم نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟ میں نے اسے اپنی بِپتا سنائی تو اس نے مجھے کھانا بھی کھلایا اور حیدر آباد جانے کے اخراجات بھی فراہم کر دیے۔ حیدرآباد پہنچ کر اپنے ایک شناسا کے پاس گیا جو دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ تھے، میری روداد سن کر انہوں نے مجھے حوصلہ دیا۔ انہی کے مشورے پر قانونی طور پر اسلامی معاشرے کا حصّہ بننے کے لئے ایک مفتی صاحب سے مسلمان ہونے کا تصدیق نامہ حاصل کیا۔ کورٹ میں کاغذی کاروائی کے لیے پہنچا تو اتفاقاً گھر والے بھی مجھے تلاش کرتے کرتے وہاں آدھمکے۔ انہوں نے جونہی مجھے دیکھا آگ بگولہ ہو کر بھوکے بھیڑیوں کی طرح دانت پیستے ہوئے میری جانب لپکے۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھے مار مار کے ادھ مرا کر دیتے میں بے اختیار چیخنے چلانے لگا ’’میں مسلمان ہوا ہوں اور یہ مجھے جان سے مارنا چاہتے ہیں ‘‘ میری آہ و بُکا سن کر فوراً پولیس والے آگئے جس پر میری جان بخشی ہوئی۔ پھر