صرف اپنے ذاتی مُعاملات بلکہ تجارتی مصروفیات میں بھی صدق و امانت، عدل و انصاف تقویٰ و احسان، ایثار و بھلائی اور مسلمانوں کی خیر خواہی کو اپناتے ہوئے اسلام کے مَعاشی اصولوں پر کاربند رہے شاید اسی وجہ سے ان کے دور کی مَعاشی خوشحالی اپنی مثال آپ تھی،مگر افسوس!جیسے جیسے ان خوبیوں کی جگہ ظلم و جبر،فسق و فجور، ناانصافی،دروغ گوئی(جھوٹ)،فریب دہی (دھوکا)،مَفادپرستی،سُود خوری اور بدخواہی جیسی بُرائیاں مُسلمانوں کے کردار میں پیدا ہوتی گئیں ان کی مَعِیْشت دن بدن زوال پذیر ہوتی گئی اور بالآخر تباہی کے اندھے کنویں میں جاپڑی۔اگر آج بھی ہم قرآن و حدیث میں بیان کردہ حُصُولِ رزق کے مدنی پھولوں پر عمل کریں اور کسب وتجارت کے مُعاملے میں اپنے اسلاف کا طرزِعمل اختیار کریں تو اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ پورے مُعاشرے میں ایک شاندار خوشحالی لا سکتے ہیں اور مَعِیْشت کو ایک بار پھر عروج و اِسْتِحکام نصیب ہوسکتا ہے۔
مَعِیْشت کا آغاز
صَدْرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی مقصدِ کسب و تجارت اور آغازِ مَعِیْشت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ انسانی ضروریات اتنی زائد اور اُن کی تَحْصِیل (حاصل کرنے)میں اتنی دُشواریاں ہیں کہ ہر شخص اگر اپنی تمام ضروریات کا تنہا متکفل(ذِمّے دار )ہونا چاہے غالباً عاجز ہو کر بیٹھ رہے گااور اپنی زندگی کے ایّام خوبی کے ساتھ گُزار نہ سکے گا، لہٰذا اُس حکیمِ