کر مال دیا جائے،مجھ سے سُود لیا جائے ،مجھ سے رشوت لی جائے، میرے بھولے پن کا فائدہ اُٹھا کر میری جیب خالی کردی جائے؟ یقیناً کوئی شخص اپنے لئے یہ باتیں پسند نہیں کرتا تو پھر اپنے مُسلمان بھائیوں کے لئے ایسا کیوں سوچا جاتا ہے…؟ بیان کردہ حکایت میں حضرت سیِّدُنا یونس بن عُبَیْد بَصْری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ ِ الْقَوِی نے اپنے بھتیجے کی کوتاہی پر فوراً اسے سرزنش کی کہ تجھے شرم نہیں آتی ؟تجھے اللہ کا خوف نہیں کہ اتنا زیادہ نفع لے رہا ہے۔یقیناً یہ تربیت کا ایک بہترین انداز تھاتاکہ وہ بچہ آئندہ اس قسم کی حرکتوں سے باز رہے مگر افسوس ! ہماری اَخلاقی حالت تو اس قدر گر چکی ہے کہ اگر ہمارا بچہ جھوٹ بول کر یادھوکہ دے کر کسی کو لُوٹنے میں کامیاب ہوجائے توہم اسے ایک شاندار کارنامہ سمجھتے ہیں،اس پر بچے کو شاباشی دیتے ہیں،اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں اور دادِ تحسین دیتے ہوئے اس قسم کے جملے کہتے ہیں کہ بیٹا اب تم بھی سیکھ گئے ہو،تمہیں کاروبار کرنا آگیا ہے،تم سمجھدار ہوگئے ہو وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ایسے موقعے پر تو ہمیں اپنے بچے کی تربیت کرنی چاہئے کہ بیٹا جھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر کاروبار نہیں کرنا چاہئے ورنہ اس کے وبال سے ہمارے کاروبار ومال میں زوال آجائے گا اور ہم تباہ و برباد ہوجائیں گے۔
بہت بڑی خیانت
یاد رکھئے! تجارت ہو یا دیگرمعاملات، کسی کو دھوکہ دینا یا جھوٹ بولنا انتہائی سخت جرم اور بہت بڑی خیانت ہے ۔ چنانچہ