میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بیان کردہ حدیث مبارکہ میں تجارتی اصولوں پر مشتمل جو مدنی پھول بیان کئے گئے ہیں درحقیقت یہ مدنی پھول رزق میں برکت اور مُلک و قوم کی ترقّیِ معیشت کے ضامن ہیں۔صحابہ ٔ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اور اسلاف و بُزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِین نے عملی زندگی کے ہرمیدان میں ان خوبیوں کو اپنے کردار کا حصہ بنا رکھا تھا۔ان مُبارک ہستیوں کی نظر میں معاشی خوشحالی کا مفہوم ہرگزہرگز یہ نہ تھاکہ مُلک و قوم کو خواہ کتنا ہی خسارہ ہوجائے ،مُسلمان بھائی کتنا ہی مالی بدحالی کا شکار ہوجائے مگر میرے مالی حالات بہتر ہونے چاہئیں،میری ذاتی ملکیت ودولت میں اضافہ ہونا چاہئے۔جائز و ناجائز کسی بھی طریقے سے دوسرے مُسلمانوں کو کنگال کرکے ان کے مال کو اپنی جائداد کا سنگِ بنیاد قرار دینا ان کے دل نے کبھی گوارا نہ کیاکیونکہ وہ نُفُوسِ قدسیہ آج کے بعض تاجروں (Business men) کی طرح ’’پیسہ ہو چاہے جیسا ہو ‘‘کے قائل نہ تھے بلکہ وہ تو اپنے مُسلمان بھائیوں کے حقیقی خیر خواہ ہوا کرتے تھے اور ان کے نُقصان کو اپنا نُقصان سمجھا کرتے تھےلہٰذا ہمیں بھی اسلاف کے طرزِ عمل اور پیارے آقا ،مدینے والے مصطفےٰصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمکے فرامین کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنے اندر تمام مسلمانوں کی خیرخواہی کا جذبہ بیدار کرنا چاہئے۔
دین خیر خواہی کا نام ہے
حضرت تمیم داری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ