حقیقت یہ ہے کہ خرابیاں اور بدعنوانیاں کاروبار میں نہیں بلکہ خود ہمارے کردار میں موجود ہیں جن کے سدِّباب (روک تھام)کے لئے شریعتِ مطہرہ نے جائز و ناجائز اور حلال وحرام کے پیمانے مقرر کردیئے تاکہ کوئی مُسلمان ظلم کا شکار نہ ہو اور نہ ہی کسی کی حق تلفی ہو لہٰذا جو لوگ ان احکامات پر عمل پیرا ہوئے وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے ، اور جنہوں نے ان احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حرام و حلال کی تمیز نہ کی اور خواہشِ نفس پر چلے وہ دنیا و آخرت میں خائب و خاسر (ناکام)ہوئے۔ آیئے حدیث پاک کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام کی نظر میں تجارت کے کیا ضابطے ہیں اورایک تاجر کو کیسا ہونا چاہئے۔
تاجر کو کیسا ہونا چاہئے؟
حضرت سیِّدُنا مُعاذ بن جبل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ دوجہاں کے تاجور سلطانِ بحر و بر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بےشک سب سے پاکیزہ کمائی ان تاجروں کی ہے جوبات کریں تو جھوٹ نہ بولیں،جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت نہ کریں،جب وعدہ کریں تو اس کی خلاف ورزی نہ کریں، جب کوئی چیز خریدیں تو اس میں عیب نہ نکالیں، جب کچھ بیچیں تو اس کی بیجا تعریف نہ کریں،جب ان پر کسی کا کچھ آتا ہو تو اس کی ادائیگی میں سُستی نہ کریں اور جب ان کا کسی اورپرآتا ہوتو اس کی وُصولی کے لئے سختی نہ کریں ۔(1)
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
1…شعب الایمان ، باب حفظ اللسان،۴/۲۲۱،حدیث: ۴۸۵۴