حاصل کیا ہے ، دُور تک دو ر ویہ ( یعنی دونوں طرف) سنگِ مرمر کے پہاڑ سر بَفَلک ( یعنی بہت بلند) دیوار وں کی طرح چلے گئے ہیں ، کئی میل کے سفر میں صرف ایک جگہ کنارہ دیکھا جو غالباً (8)گز چوڑا تھا ۔ اس ہیبت ناک منظر کا نام بر ادر مکرم مولانا مولوی حسنین رضا خان صاحب ( یعنی سرکار اعلیٰ حضرت کے بھتیجے)نے فِی البَدِیہہ ( یعنی بے ساختہ) ’’دَہانِ مرگ ‘‘ ( یعنی موت کا دہانہ )رکھا ، کشتی نہایت تیز جارہی تھی ، لوگ آپس میں مختلف باتیں کررہے تھے ، اِس پر ارشاد فرمایا:’’ اِن پہاڑوں کو کلمۂ شہادت پڑھ کر گواہ کیوں نہیں کرلیتے!‘‘
مٹی کے ڈھیلوں کواپنے ایمان کا گواہ بنانے کا انعام
(پھر فرمایا)ایک صاحب کا معمول تھا جب مسجد تشریف لاتے تو سات ڈھیلوں کو جوباہر مسجد کے طاق میں رکھے تھے اپنے کلمۂ شہادت کا گواہ کرلیا کرتے ،
اِسی طر ح جب واپس ہوتے تو گواہ بنالیتے ۔ بعدِ انتقال ملائکہ ان کو جہنم کی طرف لے چلے، اُن ساتوں ڈھیلوں نے سات پہاڑ بن کر جہنم کے ساتوں دروازے بند کر دیئے اور کہا:’’ہم اس کے کلمۂ شہادت کے گواہ ہیں۔‘‘ انہوں نے نجات پائی ۔ تو جب ڈھیلے پہاڑ بن کر حائل ہوگئے تو یہ تو پہاڑ ہیں۔
یہ سن کر سب لوگ بآوازِ بلند کلمۂ شہادت پڑھنے لگے ، مسلمانوں کی زبان سے کلمہ شریف کی صدا بلند ہوکر پہاڑوں میں گونج گئی ۔(ملفوظات ِ اعلی حضرت ،ص۳۱۳ بتصرف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد