خوف ایک ایسے تازیانے (کوڑے)کی مثل ہے جو کسی جانور کو تیز چلانے کے لئے مارا جاتا ہے ، لہذا!اگر اس تازیانے کی ضَرْب اتنی ’’ضعیف‘‘ ہوکہ جانور کی رفتار میں ذرّ ہ بھر بھی اضافہ نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ،اور اگر یہ ضرب اتنی ’’قوی‘‘ ہو کہ جانور اس کی تاب نہ لاسکے اور اتنا زخمی ہوجائے کہ اس کے لئے چلنا ہی ممکن نہ رہے تو یہ بھی نفع بخش نہیں ،اور اگر یہ ’’معتدل‘‘ہو کہ جانور کی رفتار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوجائے اور وہ زخمی بھی نہ ہو تو یہ ضرب بے حد مفید ہے ۔(ماخوذ من احیاء علوم الدین،کتاب الخوف والرجائ،بیان درجات الخوف۔۔الخ ،۴/۱۹۲ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
خوفِ خدا کی علامات
حضرت سَیِّدُنا فقیہ ابواللیث سمر قندی علیہ رحمۃُ اللہِ الہادی ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہعَزَّوَجَلَّ کے خوف کی علامت آٹھ چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے :
(1) انسان کی زبان میں ،وہ اس طرح کہ رب تعالیٰ کا خوف اس کی زبان کو جھوٹ،غیبت، فضول گوئی سے روکے گا اور اُسے ذکرُ اللہ ،تلاوتِ قرآن اور علمی گفتگو میں مشغول رکھے گا ۔
(2) اس کے شکم میں ،وہ اس طرح کہ وہ اپنے پیٹ میں حرام کو داخل نہ کرے گا اور حلال چیز بھی بقدر ِضرورت کھائے گا ۔
(3) اس کی آنکھ میں ، وہ اس طرح کہ وہ اسے حرام دیکھنے سے بچائے گا