چھٹااقتباس :
انکارِ آخرت وہ چیز ہے جو کسی شخص، گروہ یا قوم کو مجرم بنائے بغیر نہیں رہتی، اَخلاق کی خرابی اس کا لازمی نتیجہ ہے اور تاریخِ انسانی شاہد ہے کہ زندگی کے اس نظریے کو جس قوم نے اختیار کیا ہے وہ آخر کار تباہ ہو کر رہی، آخرت سے انکار دراصل خدا اور اس کی قدرت اور حکمت سے انکار ہے اور آخرت سے انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو خواہشاتِ نفس کی بندگی کرنا چاہتے ہیں اور عقیدۂ آخرت کو اپنی اس آزادی میں مانع سمجھتے ہیں جب وہ آخرت کا انکار کردیتے ہیں تو ان کی بندگیٔ نفس اور زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ اپنی گمراہی میں روز بہ روز زیادہ ہی بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔
ساتواں اقتباس :
عالمِ آخرت کا تصوُّر صرف اہلِ اسلام ہی کے عقیدے میں نہیں ہے بلکہ دنیا کے سارے انسانوں کی فطرت اسی عقیدہ سے ہم آہنگ ہے۔
چند مخصوص طبقات اور چند مخصوص عہد کے لوگوں کےبارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ فکرو اِ عتقاد کی غلطیوں میں مبتلا ہوگئے لیکن نسلِ انسانی کے یوم آغاز سے لے کر آج تک بلا تفریق سار ی دنیا کے انسانوں پر یہ الزام ہر گز عائد نہیں کیا جاسکتا کہ آخرت کے تصوُّر کو اپنے مذہبی عقائد کی فہرست میں شامل کرکے وہ فریب ِمسلسل کا شکار رہے خاص طور پر ان حالات میں جب کہ عقیدۂ آخرت کی تعلیم دینے والوں میں وہ انبیاء و مرسلین(عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام)بھی ہیں جن کی شخصیتیں نہ صرف اہلِ اسلام میں بلکہ اقوام عالم میں بھی مُسَلَّمُ الثُّبُوتاورعزت