شکمِ مادر سے باہر آجانے کے بعد اگر ساری دنیا کے اَطبّاء وحکماء چاہیں کہ پیٹ چاک کرکے پھر بچے کو دوبارہ اس جگہ منتقل کردیں تو یقین ہے کہ ایک منٹ بھی وہاں زندہ نہیں رہ سکے گا، یہیں سے خدا اور بندوں کے انتظام کا فرق سمجھ میں آجاتا ہے کہ جو چیز بندوں کے لیے ناممکن ہے وہ خدا کی قدرت کے سامنے ممکن ہی نہیں بلکہ واقع ہے اور یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ہر عالم کا ماحول اور تقاضا الگ الگ ہے، ایک کا قیاس دوسرے پر نہیں کیا جاسکتا۔
اتنی تفصیل کے بعد کہنا یہ ہے کہ عالم ِدنیا میں آنے سے پہلے اگر انسان کو مرحلہ وار دوعالم سے گزرنا پڑتا ہے تو عالم دنیا کے بعد بھی اگر کوئی چوتھا عالم مان لیا جائے تو اس میں کیا عقلی قباحت ہے؟ اسی چوتھے عالم کا نام ہم عالم آخرت رکھتے ہیں اگر اسی نام سے اختلاف ہے تو کوئی اور نام رکھ لیا جائے لیکن ایک چوتھا عالم تو بہرحال ماننا ہی پڑے گا؛ کیونکہ مرنے کے بعد جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو وہی سوال یہاں بھی اٹھے گا کہ نکل کر وہ کہاں گئی؟وہ جہاں بھی گئی ہو اسی کا نام عالمِ آخرت ہے۔
تیسرااقتباس :
توحید کے بعددوسری صفت جو ہر زمانے میں تمام انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام پر مُنْکَشِف کی گئی اور جس کی تعلیم دینے پر وہ مامور کیے گئے وہ آخرت پر یقین رکھنا تھا؛ کیونکہ دین کا پہلا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے جس کی عبادت کی جانی چاہیے اور دوسرا بنیادی اصول آخرت پر یقین رکھنا ہے جسے سورۃ البقرہ۲ کی پہلی ہی آیت میں عَلَی التَّرتِیب اس طرح فرمایا گیا ہے کہ