فکر آخرت کا مختصر بیان
پہلااقتباس :
مادیت پرستی کے اس دور میں واضح طور پر محسوس کررہا ہوں کہ ہمارے افکار واعمال پر اب مذہب کی گرفت دن بہ دن ڈھیلی پڑتی جارہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کی باز پرس کا خطرہ اب ایک تصوّرِموہوم ہو کر رہ گیا ہے حالانکہ غور فرمائیے تو مذہب کی بنیاد ہی عقیدۂ آخرت پرہے۔عقیدۂ آخرت کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کا یقین دل میں راسخ ہوجائے کہ ہم مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور خدا کے سامنے ہمیں اپنی زندگی کے سارے اعمال کا حساب دینا ہوگا اور اپنے عمل کے اعتبار سے جزا و سزا دونوں طرح کے نتائج کا ہمیں سامنا کرنا پڑے گا، اسی یَومُ الْحِساب کا نام مذہبِ اسلام کی زبان میں قیامت ہے۔
اگر آخرت کا یہ اعتقاد دلوں سے نکل جائے تو مذہب کی پابندی کا سوال ہی بے معنی ٰہو کر رہ جائے، آخر کوئی آدمی کیوں رمضان کے مہینے میں سارا دن اپنے آپ کو بھوکا پیاسا رکھے،ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں کیوں کوئی اپنے گرم لحاف سے نکل کر مسجدکی طرف جائے ،اپنے خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت کیوں کوئی زکوۃ کے نام پر غریبوں میں لٹائے ، خواہشِ نفس اور قدرت و اختیار کے باوجود کیوں کوئی ایسی بہت ساری چیزوں سے منہ موڑے جسے مذہب نے ممنوع قر ار دیا ہے؟ یہ ساری مشقتیں اور تکلیفیں صرف اسی لیے تو گوارا کرلی جاتی ہیں کہ ان کے پیچھے یا تو عذاب کا خطرہ لاحق ہے یا پھر دائمی آسائش و راحت کا تصوّر مذہب کی ہدایات پر چلنے کی ترغیب دیتاہے۔