چنانچہ ایک موقعہ پر ان کی اس صفت کو اس طرح فرمایا گیا ہے:
(وَ الَّذِیۡنَ یُصَدِّقُوۡنَ بِیَوْمِ الدِّیۡنِ ﴿۲۶﴾۪ۙوَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مِّنْ عَذَابِ رَبِّہِمۡ مُّشْفِقُوۡنَ ﴿ۚ۲۷﴾)(1) اور وہ جو انصاف کا دن سچ جانتے ہیں اوروہ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔(سورۃ المعارج۷۰،رکوع۱)
(انکارِ آخرت کے بعد خدا کو ماننا بے معنیٰ ہے:)
آخرت کے انکار کے بعد خدا کو ماننا دین اسلام میں کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ آخرت کو مُسْتَـبْعـَد(2) سمجھنا صرف آخرت ہی کا انکار نہیں بلکہ خدا کی قدرت اور حکمت کا بھی انکار ہے، کم ظرف لوگ جنہیں دنیا میں کچھ شان و شوکت حاصل ہوجاتی ہے ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ انہیں اسی دنیا میں جنّت نصیب ہوچکی ہے اور اب وہ کون سی جنّت ہے جسے حاصل کرنے کی وہ فکر کریں؟
(منکرِآخرت کی مثال اور اس کا انجام:)
ایسی ہی مثال خدائے تعالیٰ نے سورۃ الکہف ۱۸کے رکوع ۵ میں دو مردوں کی دی ہے جن میں ایک کو اس نے انگوروں کے دو باغ دیئے تھے جو کھجوروں سے ڈھانپ دیئے گئے تھے اور ان کے بیچ بیچ میں کھیتی رکھی گئی تھی دونوں باغوں کے بیچ میں خدا نے نہر بھی بہادی تھی اور وہ پھل بھی خوب دیتے تھے، ایک روز یہ شخص اپنے ساتھی سے بولا کہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1… پ۲۹،المعارج:۲۶-۲۷۔
2… بعید، ناممکن۔