Brailvi Books

عقیدۂ آخرت
12 - 41
عقیدۂ آخرت
توحید کے بعددوسری صفت جو ہر زمانے میں تمام انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام پر مُنْکَشِف(1)کی گئی اور جس کی تعلیم دینے پر وہ مامور کیے گئے وہ آخرت پر یقین رکھنا تھا کیونکہ دین کا پہلا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہمارا رب صرف اللہہے جس کی عبادت کی جانی چاہیے اوردوسرا بنیادی اصول آخرت پر یقین رکھنا ہے جسے سورۃ البقرہ۲کی پہلی ہی آیت میں عَلَی التَّـرْ تِیب(2) اس طرح   فرمایا گیا ہے کہ 
اَلَّذِیۡنَ یُؤْمِنُوۡنَ بِالْغَیۡبِ (3) (ترجمهٔ کنز الایمان:وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں) اور
 وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ (4) (ترجمهٔ کنز الایمان:اور آخرت پر یقین رکھیں) اور ایسے ہی لوگوں کو ان ہی آیات میں مُتَّقِین (ڈر والے) کے لقب سے نوازا گیا ہے اور بلند مرتبہ کتاب (قرآن) ایسے ہی ڈر والوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمائی گئی ہے۔
(انتخابِ ا نبیاء کی اہم وجہ:)
خدائے تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ نبیوں کو اگر کلمۂ حق بلند کرنے کے لیے منتخب کیا تو منتخب کیے جانے کی وجہ صرف یہ نہ تھی کہ وہاُولِی الْاَیۡدِیۡ وَ الْاَبْصَارِ (قدرت اور علم والے) تھے، بلکہ جیسا خود خدائے تعالیٰ سورۂ صٓ ۳۸کے رکوع۴ میں فرماتا ہے کہ ان چیدہ بندوں کو منتخب کیے جانے کی وجہ ان کی یہ خالص  صفت تھی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1… آشکار۔
2… ترتیب کے ساتھ۔
3…  پ۱، البقرة: ۳۔
4… پ۱، البقرة: ۴۔