خوشبو کے استعمال سے مراد
حضرت علامہ ملا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی شرح اللُّباب( ص ۳۱۲)میں فرماتے ہیں :المراد بالالصاق اللصوق والتعلق بحسب الریح لابالتصاق جزء الطیب ولھذا لوربط بثوبہ مسکا اونحوہ یجب الجزاء ولو ربط العود لم یجب لوجود الالصاق فی الاول دون الثانییعنی الصاقِ خوشبو سے مراد اس کا ( کپڑے یا جسم پر) بو کے اعتبار سے چمٹنا یا متعلق ہونا ہے، نہ کہ اجزائے خوشبو کے اعتبار سے، اسی وجہ سے اگر کسی نے اپنے کپڑے میں مشک یا اس کی مثل(خوشبو دینے والی کوئی شے) باندھی تو کفارہ واجب ہوگا اور اگر عُود باندھی ہو ، تو نہیں۔ پہلی صورت میں الصاق کے پائے جانے اور دوسری میں نہ پائے جانے کی وجہ سے۔
چند امورِ ضروریہ
(۱) عود میں جزاء واجب نہ ہونے کی علّت یہ ہوسکتی ہے کہ عود کو جب تک جلایا نہ جائے عموماً وہ خوشبو نہیں دیتی لہٰذا یہ خوشبو شمار نہیں ہوتی بخلاف مشک کے کہ اس کا لباس پر باندھنا بھی خوشبو میں شامل ہے۔خود ملا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی شرح اللباب ( ص ۳۲۲) میں فرماتے ہیں : وان ربط العود فلا شیء علیہ وان وجد رائحتہ کذا فی البحر الزاخر وغیرہ لکن فیہ ان العود لیس لہ رائحۃ الا بالنار ولو فرض وجود عود لہ رائحۃ بالحک مثلا فلا شک ان حکمہ کالعنبر وغیرہ لان العلۃ ھی الرائحۃ ھذایعنی اگر کسی نے عود کو باندھا تو کوئی کفارہ نہیں اگرچہ اس کی خوشبو پائی جائے جیسا کہ اَلْبَحرالزَّاخر وغیرہ میں ہے۔ لیکن اس میں یہ ( اشکال) ہے کہ عود کے لیے آگ کے بغیر خوشبو ہوتی ہی نہیں اور اگر ایسی عود کا وجود فرض