ابو جَہْل کا سر
سرکارِنامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کون ہے جو ابوجَہْل کو دیکھ کر اس کا حال بتائے؟توحضرتِ سیِّدُناعبدُاللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جاکر لاشوں میں دیکھا تو ابوجَہْلزخمی پڑا ہوا دَم توڑ رہا تھا،اس کا سار ا بدن فَولاد میں چھپا ہوا تھا ،اس کے ہاتھ میں تلوارتھی جورانوں پررکھی ہوئی تھی،زخمو ں کی شدّت کے باعِث اپنے کسی عُضْو کو جُنبش نہیں دے سکتا تھا۔ سیِّدُنا عبدُ اللّٰہ ابنِ مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس کی گردن پر پاؤں رکھا، اس عالَم میں بھی اُس کے تکبُّر کا عا لَم یہ تھاکہ حَقارت سے بول اٹھا: اے بکریوں کے چرواہے!تُوبڑی اونچی اور دشوار جگہ پر چڑھ گیا۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ص۲۶۲،۲۶۳)حضرتِ سیِّدُناعبداللّٰہابن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : میں اپنی کُند تلوارسے ابوجہل کے سرپرضَربیں لگانے لگا،جس سے تلوا ر پر اُس کے ہاتھ کی گِرِفت ڈھیلی پڑگئی،میں نے اُس سے تلوارکھینچ لی۔ جانکنی کے عالم میں اس نے اپنا سراٹھایا اور پوچھا: فتح کس کی ہوئی؟ میں نے کہا:لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ۔ یعنی اللہ و رسول عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے ہی فتح ہے۔پھر میں نے اُس کی داڑھی کو پکڑکرجھنجھوڑا اور کہا:اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَخْزَاکَ یَا عَدُوَّ اﷲِیعنی اُس اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکرہے کہ جس نے اے دشمنِ خدا! تجھے ذلیل کیا۔میں نے اُس کا خَوداس کی گُدّی سے ہٹایا اور اسی کی تلوارسے اس کی گردن پر زور دار وار کیا اس کی گردن کٹ کرسامنے جاگری ۔ پھر میں نے اُس کے ہتھیا ر ، زِرَہ وغیرہ