تواس پرٹوٹ پڑوں یاتواس کو مار ڈالوں یا خود مرجاؤں ۔دوسرے لڑکے نے بھی مجھ سے اِسی طرح کی گفتگوکی۔(شاعِر ان دونوں نوعمرلڑکوں کے جذبات کی عَکّا سی کرتے ہوئے کہتا ہے ) ؎
قسم کھائی ہے مرجائیں گے یاماریں گے ناری کو
سنا ہے گالیاں دیتاہے یہ محبوبِ باری کو
حضرتِ سیِّدُنا عبدالرحمن بن عو ف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مزیدفرماتے ہیں :اچانک میں نے دیکھا کہ ابو جَہْل اپنے سپاہیوں کے درمیان کھڑا ہے۔ میں نے ان لڑکوں کو ابو جہل کی طرف اشارہ کردیا۔وہ تلواریں لہراتے ہو ئے اُس پرٹوٹ پڑے اور پے دَرپے وار کر کے اُسے پچھاڑ دیا۔پھر دونوں اپنے پیارے اورمیٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضِر ہوگئے اورعرض کی: یارَسُوْلَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم نے ابوجہل کو ٹھکانے لگادیا ہے ۔ سرکارِعالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِستِفسار فرمایا: تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟ دونوں ہی کہنے لگے: میں نے۔ شَہَنْشاہِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کیا تم نے اپنی خون آلودہ تلواریں صاف کر لی ہیں ؟دونوں نے عرض کی: جی نہیں ۔میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان تلواروں کومُلاحَظہ کر کے فرمایا: کِلَاکُمَا قَتَلَہٗیعنی تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے ۔ ( بُخاری ج۲ ص۳۵۶ حدیث۳۱۴۱)
دونوں مُنّوں کابھی حملہ خوب تھا بو جَہْل پر
بَدر کے ان دونوں ننّھے جاں نثاروں کو سلام