رَیزہ رَیزہ کردینے کا عزم انہیں ماہیِ بے آب(یعنی بِغیر پانی کی مچھلی) کی طرح تڑپارہا ہے ، شوقِ شہادت انہیں بے چین کئے دیتاہے،جاں نثارانِ بَدرکی عظمت و شان کا بیا ن کرتے ہوئے شاعِرکہتاہے:
وہاں سینوں میں کینہ تھا شَقاوت تھی عدوات تھی یہاں ذوقِ شہادت اور ایماں کی حَلاوت تھی
مجاہِدجن کو وعدے یاد تھے آیاتِ قراں کے کھڑے تھے صبح سے ڈ ٹ کرمقابِل فوجِ شیطاں کے
جوغیرت مندراہِ حق میں تھے مصروفِ جانبازی اَبَد تک نام ان کا ہوگیا اللہ کے غازی
غَزاحق کیلئے حق کیلئے ان کی شہادت تھی یہ جینا بھی عبادت تھا یہ مرنا بھی عبادت تھی
شہادت کا لَہو جن کے رُخوں کا بن گیا غازہ کُھلا تھا ان کی خاطر دائمی جنّت کا دروازہ
شہادت اعلیٰ منزِل ہے مُسلمانی سعادت کی وہ خوش قسمت ہیں مِل جائے جنہیں دولت شہادت کی
شہادت پاکے ہستی زندۂ جاوِید ہوتی ہے یہ رنگیں شام، صبحِ عید کی تمہید ہوتی ہے
شہید اس دارِفانی میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں زمیں پر چاند تاروں کی طرح تابِندہ رہتے ہیں
اِسی رنگت کو ہے ترجیح اس دنیا کی زینت پر خدا رحمت کرے ان عاشقانِ پاک طِینَت پر
سماسکتی ہے کیونکر حُبِّ دنیا کی ہوا دل میں بسا ہوجب کہ نقشِ حُبِّ محبوب خدادل میں
محمدکی محَبّت دینِ حق کی شرطِ اوَّل ہے اِسی میں ہواگر خامی تو سب کچھ نامکمّل ہے
محمد کی غلامی ہے سَنَدآزاد ہونے کی خدا کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی
محمد کی محَبت آنِ ملّت شانِ ملّت ہے محمد کی محبت روحِ ملّت جانِ ملّت ہے
محمد کی محَبت خون کے رِشتوں سے بالا ہے یہ رشتہ دُنیوی قانون کے رِشتوں سے بالاہے
محمد ہے متاعِ عالَمِ ایجاد سے پیارا پِدَر،مادربِرادر مال جاں اولاد سے پیارا
یِہی جذبہ تھا ان مردانِ غیرت مند پر طاری دِکھائی جن کے ہاتھوں حق نے باطِل کونِگُوں ساری