( بَحْرِ اَحْمَر کی) موجوں نے اپنے نَرغے میں لے لیاتوپکاراٹھا:
قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۹۰) (پ۱۱،یونس:۹۰)
ترجَمۂ کنزالایمان:بولامیں ایمان لایاکہ کوئی سچّا معبود نہیں سِوااس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں ۔
مگراِس اُمّت کافرعون مرنے لگاتو اس کی اسلام دشمنی ا و ر سرکشی میں کمی کے بجائے اِضافہ ہوگیا۔ (مُحَمّد رسول اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
ج۳ص۴۳۱، تفسیر کبیر ج۱۱ص۲۲۴،۲۲۵)
قُدرت کے نرالے انداز
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قدرت کے بھی نرالے اندازہیں بڑے بڑے جنگ آزماؤں نے ابوجَہْل پرتلواروں کے وارکئے مگر وہ نہ مرا،آخِرِ کار دو مَدَنی مُنّوں نے اس کوگرادیا!اِس حملے میں وہ عاجِزاوربے دست وپا ہو گیا ، ہِلنے جُلنے کی اس میں سَکت نہ رہی۔مگراس سخت جان کی رُوح نہ نکلی،خدا عَزَّ وَجَلَّ کی قدرت کہ آخرِدم تک اِس کے ہو ش وحَواس قائم رہے۔اس میں حکمت یہ تھی کہ اس غُرور و تکبُّرکے پُتلے کو اُس مظلوم وبیکس بندے کے ہاتھوں واصلِ جہنَّم کیاگیا جو ما لی لحاظ سے خالی،جسمانی لحاظ سے کمزوراورقبیلے کے لحاظ سے بھی بے یارومددگار تھا ۔ اسلام لا نے کے سبب ابوجَہْل،حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو گالیا ں بکتا اورآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سرِ مبارَک کے بال پکڑکرطمانچے رسید کیا کرتا تھا اُس وَقْت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کسی قسم کی