بُرا برتن نہیں بھرتا، انسان کیلئے چند لقمے کا فی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں ، اگرایسا نہ کرسکے تو تہائی(۳ / ۱)کھانے کیلئے ، تہائی پانی کیلئے اور ایک تِہائی سانس کیلئے ہو ۔ ‘‘ (سُنَنِ اِبن ماجہ ج۴ص۴۸حدیث ۳۳۴۹)
لذّت کیلئے ڈٹ کرکھانا کُفّار کی صِفَت ہے
یاد رہے ! موٹا ہونا یا لذّ ت کیلئے کوئی غذا استِعمال کرنا یا پیٹ بھر کر کھانا گناہ نہیں ، البتّہ ان چیزوں سے بچنابَہُت مناسب ہے ۔ جیسا کہ صَدرُا لشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بھوک سے کم کھانا چاہیے اور پوری بھوک بھر کر کھانا کھا لینا مباح ہے یعنی نہ ثواب ہے نہ گناہ، کیونکہ اس کا بھی صحیح مقصد ہوسکتا ہے کہ طاقت زیادہ ہوگی اور بھوک سے زیادہ کھالینا حرام ہے ۔ زیادہ کا یہ مطلب ہے کہ اتنا کھالینا جس سے پیٹ خراب ہونے کا گمان ہے ، مثلاً دست آئیں گے اور طبیعت بدمزہ ہوجائے گی ۔ (دُرِّمُختار ج۹ ص۵۶۰) آگے چل کر مزید فرماتے ہیں : قراٰنِ کریم میں کُفّار کی صِفَت یہ بیان کی گئی کہ کھانے سے اُن کا مقصود تَمَتُّع و تَنَعُّم (تَمَت ۔ تُع ۔ وَ ۔ تَنَع ۔ عُم ۔ یعنی لذّت و مزا لینا)ہوتا ہے اور حدیث میں کثرتِ خَوری ( یعنی زیادہ کھانا) کُفّار کی صِفَت بتائی گئی ۔ (بہارِ شریعت ج۳ص ۳۷۵)