کے دل میں عالِمَانہ وَسوَسے اورصُوفیوں کے دل میں عاشِقَانہ وَسوَسے،عوام کے دِل میں عامِیانہ وَسوسے ڈالتا ہے۔(یعنی )’’ جیسا شکار ویسا جال!‘‘ بَہُت دَفعَہ(گناہوں کو ایسا سجا کر پیش کرتا ہے کہ) اِنسان گناہ کو عبادت سمجھ لیتا ہے ! (مراٰۃ ج ۱ ص ۸۷ ) بعض اَوقات شیطان اپنے آپ کو ’’خُدا‘‘ کہہ کر بھی سامنے آجاتا ہے اور گمراہ کرنے کی کوشِش کرتا ہے، جیسا کہ ہمارے پیرومُرشِد شَہَنْشاہِ بغداد حُضُور غوثِ اعظم سیِّدُناشیخ عبد القادِر جِیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبَّانِیکے پاس آیا تھا۔
سُن لو شیطاں نے ہر طرف ہر سُو
خوب پھیلا کے جال رکھا ہے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے بارے میں وَسْوَسے
ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطَفٰے صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حفاظت نشان ہے : تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے تو اُس سے کہتا ہے کہ فُلاں چیز کس نے پیدا کی؟ فُلاں کس نے ؟ یہاں تک کہ کہتا ہے کہ تمہارے رب عَزَّ وَجَلَّ کو کس نے پیدا کیا ؟ جب اِس حد تک پہنچے تو ’’اَعُوْذُ بِاللہ ‘‘پڑھ لو اور اِس سے باز رہو۔( بُخاری ج ۲ ص۳۹۹حدیث۳۲۷۶)
ہر سُوال کا جواب نہیں دیا جاتا
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْحَنّان اس حدیثِ