میں بُرے خیالات اورفاسِد فِکر(یعنی بُری سوچ)کووَسوسہ کہتے ہیں ۔(اشعہ ج ا ص۳۰۰) تفسیرِ بَغَوِی میں ہے : وَسوسہ اُس بات کو کہتے ہیں جو شیطان انسان کے دل میں ڈالتا ہے۔(تفسیر بغوی ج۴،۲ص۵۱۸،۱۲۷)عام طور پر ’’وسوسے‘‘ ہر ایک کو آتے ہیں ، کسی کو کم کسی کو زیادہ۔ بعض لوگ بَہُت زِیادہ حَسّاس ہونے کے سبب ’’ وَسوَسوں ‘‘ کے مُتَعلِّق (مُ۔تَ۔عَل۔لق)سوچ سوچ کر انہیں اپنے اوپر مُسلَّط کر لیتے اور پھر خود ہی تکلیف میں آجاتے ہیں ! اگر’’وسوسوں ‘‘ پر غور نہ کیا جائے تو عُمُوماً یہ خودہیخَتْم ہو جاتے ہیں ۔ جُوں ہی وَسوسے آنے شروع ہوں ’’ ذِکرُ اللہ ‘‘ مَثَلاً ’’ اللہ اللہ ‘‘ کرنا شروع کر دیجئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ شیطان فِرار ہو جائے گا۔مسلمان جس قَدَر ربُّ الْعٰلمینعَزَّ وَجَلَّ کی اِطاعَت میں آگے بڑھتا ہے، اُسی قدرشیطان کی مخالَفَت و عَداوت بھی بڑھ جاتی ہے اور وہ ہَمَہ اَقسام(یعنی طرح طرح) کے مَکرو فریب (اوردھوکے) کے جال بچھاتا چلا جاتا ہے اوراُس کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت اور اُس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنَّت سے روکنے کی بھی بھرپور کوشش کرتا ہے اور طرح طرح کے وَسْوَسے دِلا کر، گندے خَیالات ذِہن میں لا کر پریشان کرتارہتا ہے،یہاں تک کہ بسا اوقات جَہالت کی بِنا پرآدمی اِس کے اِن وَسوسوں کا شِکار ہو کر نیکی اور بھلائی کے کام سے رُک جاتا ہے اور یوں شیطان اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے قرآنِ مجید پارہ 18 سُورۃُ المؤمنون آیت نمبر 97اور98میں اپنے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ