تقدیر کے بارے میں وسوسے کاایک بہترین علاج
دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 344 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’مِنہاجُ العابِدین‘‘ صَفْحَہ86تا87پر حُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمدبن محمد بن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی نے جو کچھ بیان فرمایا اس کا خلاصہ ہے: ابلیس بسا اوقات وسوسے ڈال کر یوں بھی گمراہ کرتا ہے کہ انسان کے نیک و بد ہونے کے مُتَعلِّق روزِ اَزَل میں فیصلہ ہو چکا ہے، جو اُس روز بُروں میں ہو گیا وہ ’’بُرا ‘‘ہی رہے گا اور جو اچّھوں میں ہو گیا وہ’’ اچّھا‘‘ ہی رہے گا ۔ تمہارے اعمالِ نیک و بد سے فیصلۂ اَزَلی میں ہرگز فرق نہیں آ سکتا۔اگر اللہ تعالیٰ بندے کو اس وَسوسۂ شیطان سے بچا لے اور بندہ ابلیسِ لعین کویوں جواب دے کہ ’’ میں تو اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں اور بندے کاکام ہے اپنے مولیٰ کے حکم کی تعمیل ،اور اللہ تعالیٰ چُونکہرَبُّ العٰلَمین ہے اس لیے جو چاہے حکم دے اور جو چاہے کرے اور پھر عبادت و طاعت کسی طرح بھی مُضِر(یعنی نقصان دِہ) نہیں ، کیونکہ اگر میں علمِ الہٰی میں سعید (یعنی سعادت مند)ہوں تو پھر بھی اور زیادہ ثواب کا محتاج ہوں اور اگر معاذَاللہ علمِ الہٰی میں میرا نام بد بختوں میں لکھا ہو تو بھی نیک اعمال کرنے سے اپنے اوپر یہ ملامت تو نہیں کروں گا کہ مجھے اللہ تعالیٰ طاعت و عبادت نہ کرنے پر سزا دے گا اور کم ازکم یہ تو ہے کہ نافرمان بن کر جہنَّم میں جانے کی نسبت مطیع (یعنی فرماں بردار)بن کر جانا بہتر ہے ۔ لیکن یہ تو سب مَحض اِحتِمالات (یعنی شُبُہات) ہیں ، ورنہ اُس کا