پھر بندے کی کیوں گرِفت ہے اور اس کو کیوں سزا کامُرتکب(مُر۔تَ۔کِب) ٹھہرایا گیا؟ اس نے کو ن سا کام ایسا کیا جو مُستِحق عذاب کا ہوا؟ جو کچھ اُس(یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ ) نے تقدیر میں لکھ دیا ہے وُہی ہوتا ہے، کیونکہ قراٰنِ پاک سے ثابِت ہو رہا ہے کہ بِلا حکم اُس کے ایک ذَرّہ نہیں ہلتا پھر بندے نے کون سا اپنے اِختیار سے وہ کام کیا جو دوزخی ہوا یا کافِر یا فاسِق۔ جو بُرے کام تقدیر میں لکھے ہوں گے تو بُرے کام کرے گا اور بھلے لکھے ہونگے تو بھلے۔بَہَر حال تقدیر کا تابِع ہے پھر کیوں ا ِس کو مجرِم بنایا جاتا ہے ؟ چوری کرنا، زِنا کرنا،قتل کرناوغیرہ وغیرہ جو بندے کی تقدیر میں لکھ دئے ہیں وُہی کرنا ہے، ایسے ہی نیک کام کرنا ہے۔ الجواب: ’’زید گمراہ بے دین ہے ،اُسے کوئی جُوتا مارے تو کیوں ناراض ہوتا ہے؟ یہ بھی تو تقدیر میں تھا ۔ اس کا کوئی مال دبا ئے تو کیوں بگڑتا ہے؟ یہ بھی تقدیر میں تھا، یہ شیطانی فِعلوں کا دھوکاہے کہ جیسا لکھدیا ایسا ہمیں کرنا پڑتا ہے(حالانکہ ہرگز ایسا نہیں ) بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے اُس(یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ ) نے اپنے علم سے جان کر وُہی لکھا ہے۔‘‘
صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہحضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہبہارِ شریعت حصّہ اوّل صَفْحَہ 24 پرفرماتے ہیں : ’’بُرا کام کر کے تقدیر کی طرف نسبت کرنا اور مشیَّتِ (مَشِی۔یتِ)الہٰی کے حوالے کرنا بَہُت بُری بات ہے، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچّھا کا م کرے اسے مِنجانِبِ اللہ (یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی جانب سے) کہے اور جو بُرائی سر زَد ہو اُس کو شامَتِ نَفْس تصوُّر کرے۔‘‘