آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ دُعابارگاہِ مولیٰ تعالیٰ میں مُسْتَجاب(مُسْ۔تَ۔جابْ) یعنی قبول ہوئی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاحامِلہ ہو گئیں۔حمل ٹھہرتے ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے بارگاہِ ربُّ العزت جل جلالہٗ میں عرض کی،یا اللہ عَزَّوَجَلَّ میں مَنّت مان چکی ہوں کہ جو کُچھ میرے شِکم میں ہے وہ بیتُ المقدس کی خدمت کے لئے وقفہے، میں اُس سے نہ خدمت لوں گی نہ گھر کا کام کاج۔
اُس زمانے میں اِس وقف کا رواج تھا۔لوگ اپنی اولاد کو بیتُ المقدس کے لئے وقف کر دیتے اور وہ بچّے وہِیں رہتے سہتے اور خدمت کرتے تھے۔
حضرتِ سَیِّدَتُنَا حُنّہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا طلبِ اولاد کی دُعا کی قبولیت اور اپنی مَنّت پر بے حد خوش تھیں اور ربّ عَزَّوَجَلَّ سے بیٹے کی طلبگار و اُمید وار تھیں مگر خِلافِ اُمیدحضرتِ سیدنا عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ(والدِ مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کی وفات کے بعد جب اِن کے ہاں بیٹی پیداہوئی تو اُنہیں افسوس ہو ا کہ اب میں اپنی مَنّت کِس طرح پوری کروں گی کہ لڑکیوں کو بیتُ المقدس کی خِدمت کی اجازت نہیں اورلڑکی اپنی کمزور طبیعت کی وجہ سے خِدمت کے بہت سے کام سَر اَنجام نہیں دے سکتی ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا،تُم نے جِس لڑکے کے حُصُول کی دُعا کی تھی وہ اس مرتبے کا نہیں جِس پائے کی میری عطا کی ہوئی لڑکی ہے۔