نے مزید اصرار سے بچنے کے لئے سالن اِدھر اُدھر کر ديا اور روٹياں جيب ميں ڈال ليں مگر گھر والوں کو کسی طرح شک ہو گيا اور انہوں نے زبر دستی مجھے کھا نا کھلا یا۔ ميں دل ہی دل ميں کڑھتا رہا مگر مجبور تھا۔ يوں ميں پانچ روزے نہ رکھ سکا ۔
پھر ميں نے کچھ اس قسم کی گول مول باتیں کیں کہ گھر والوں نے مجھے آزادی دے دی اورمیں دوبارہ کلينک جانے لگا ۔میں بغیر سحری روزے کی نيت کر ليتا اور بظاہر دوپہر کا کھانا ساتھ لے جاتا مگر شام کے وقت اس سے افطاری کرتا۔اسی دوران ميں نے اسلام قبول کرنے کے متعلق قانونی کاغذات بھی مکمل کروا لئے مگر گھر والوں کو پتا نہیں چلنے دیا۔میں گھر والوں سے چھپ کر جس مسجد ميں نماز ادا کرنے جاتاوہاں کی انتظامیہ نے مجبوراًمنع کر ديا کہ آپ يہاں نہ آیا کریں،کہیں فساد نہ ہوجائے ۔میرا دل تو بہت دُکھا کہ میں مسلمان ہوتے ہوئے بھی حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے مسجد میں داخلے سے روک دیا گیا ہوں مگر بے بس ولاچار تھا کیا کرتا؟دعوتِ اسلامی کا مَدَنی مرکزوہاں سے بہت دُور تھااور ميں نے انہيں خودسے رابطہ کرنے سے بھی منع کر رکھا تھا۔
مسلسل پریشانیوں نے میرے اعصاب شل کردئيے تھے ۔مجھے کوئی ایسا ہمدرد اور غمگسار چاہئيے تھا جس کے کندھے پر سر رکھ کر چند اَشک بہا لُوں مگر آہ !ميں