علماء انبیاء کے وارث ہیں''
اس حدیث میں شریعت و طریقت دونوں کے علماء داخل ہیں اور جو شخص شریعت وطریقت دونوں کا جامع ہے وہ وراثت کے سبب سے عظیم وباعظمت رتبے اور سب سے کامل درجے پر فائز ہے جبکہ عمرو کا بیان ہے۔
(۱) شریعت صرف چند فرائض و واجبات اور سنتوں اور مستحبات کا نیز حلال و حرام کے چند مسائل کا نام ہے جیسے وضو اور نماز کی صورت۔
(۲) اور طریقت نام ہے اﷲ کی بارگاہ تک پہنچنے کا۔
(۳) اس میں نماز وغیرہ کی حقیقت کھل جاتی ہے۔
(۴) طریقت ایک موجیں مارتا ہوا دریا اور ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں اور شریعت اس دریا کے مقابلہ میں ایک قطرہ ہے۔
(۵) انبیاء کی وراثت کا مقصد یہی اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ تک پہنچنا ہے اور شان نبوت و رسالت کا یہی تقاضا ہے اور انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام بھی بطور خاص اسی مقصد کے لئے بھیجے گئے۔
(۶) بھائیو ! علماء ظاہر کسی طرح اس وراثت کی قابلیت نہیں رکھتے ۔
(۷) نہ یہ علماء علماء ربانی وغیرہ کہے جاسکتے ہیں۔