ساتھ تعزیَت کرنا کوئی خلافِ شَریعت عمل نہیں ،اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ سنَّت کے مطابِق ان کی عِیادت و تعزیت بھی یقینا باعثِ ثوابِ آخِرت ہے۔ مگر یہ نہ ہو کہ صِرْف مالداروں،افسروں اور دُنیوی شخصیتوں کی غمخواریاں ہوتی رہیں اور بے چارے غریب انتظار ہی کرتے رہیں۔ سچ پوچھو تو دعوتِ اسلامی پہلے غریبوں اور ناداروں کی ہے بعد میں مالداروں کی،دعوتِ اسلامی کے مَدَنی کام دُنیا بھر میں پھیلانے والوں میں غُرَبا ہی صفِ اوّل میں ہیں۔ وقفِ مدینہ ہوکر دعوتِ اسلامی کیلئے اپنی جوانیاں لُٹانے والے کون ہیں ؟ مسلسل 12ماہ اور25ماہ سنّتوں کی تربیَّت کے مَدَنی قافِلے کے مسافِر بننے والے کون ہیں؟دعوتِ اسلامی کے زیرِانتِظام چلنے والی صد ہامساجِد کے امام و مُؤَذِّن کون ہیں؟ جامِعاتُ الْمدینہ اورمدارِسُ المدینہ کے ہزاروں مدرِّسین اور مختلف اَہم ذِمّے داریوں پر فائز نِگران کون ہیں؟ یقین مانئے ! غالِب نہیں بلکہ اَغْلَب تعدادان میں مالداروں کی نہیں ،غریبوں یامُتوسِّطُ الحال اسلامی بھائیوں کی ہے ۔ مَا شَآءَاللہ یہ عاشِقانِ رسول سنّتوں کی پابندیوں کے ساتھ ساتھ مَدَنی کاموں کی بھی خوب خوب دھومیں مچاتے ہیں،پورے رَمَضانُ المبارَک کا اعتِکاف ہو یا ہفتہ وار اجتِماعات یا مَدَنی قافِلوں کا سفراِن میں بھاری اکثریَّت ان ہی ’’فُقَرائے مدینہ ‘‘ کی ہوتی ہے۔
بے شک مالداروں کا بھی دین میں حصّہ ہے
میں یہ نہیں کہتا کہ مالدار اوربڑی شخصیّات کا دین کے کاموں میں کوئی حصّہ ہی نہیں،بے شک ان کابھی ضَرور حصّہ ہے مَا شَآءَاللہ ان میں سے بھی ہمارے پاس مبلِّغین