اُن دنوں کی بات ہے جن دنوں نورمسجِد کاغذی بازار بابُ المدینہ کراچی میں میری امامت تھی،ایک اسلامی بھائی پہلے میرے قریب تھے پھر کچھ دُور دُور رہنے لگے تھے،مگر مجھے اندازہ نہ تھا۔ایک دن فَجر کے بعد مجھے اُن کے والِد صاحِب کی وفات کی خبرملی ، میں فوراً اُن کے گھر پہنچا، ابھی غسلِ میِّت بھی نہ ہوا تھا،دُعافاتِحہ کی اورلوٹ آیا، نَمازِجنازہ میں شریک ہو کر قبرِستان ساتھ گیا اورتدفین میں بھی پیش پیش رہا۔ اس کے فوائد تصوُّر سے بھی بڑھ کر ہوئے،چُنانچِہ اُس اسلامی بھائی نے خود ہی اِنکِشاف کیا کہ مجھے آپ کے بار ے میں کسی نے وَرْغَلایا تھا،اُس کی باتوںمیں آ کر میں آپ سے دُور ہو گیا اوراِتنا دُور کہ آپ کوآتا دیکھ کر چُھپ جاتاتھا لیکن میرے پیارے والِدصاحِب کی وفات پر آپ کے ہمدردانہ انداز نے میرا دِل بدل دیا، جس آدَمی نے مجھے آپ سے بَددل کیا تھا وہ میرے والِد مرحوم کے جنازے تک میں نہیں آیا۔ اِس واقِعے کو تادمِ تحریر کوئی 35سال کا عرصہ گزر چکا ہو گا، وہ اسلامی بھائی آج بھی بَہُت مَحَبَّت کرتے ہیں، نہایت با اثر ہیں، تنظیمی طور پر کام بھی آتے ہیں، داڑھی سجائی ہوئی ہے، خودمیرے پیر بھائی ہیں مگران کے بال بچّے نیز دیگر بھائی اور خاندان کے مزید افراد عطّاری ہیں، چھوٹے بھائی کا مَدَنی حُلیہ ہے اور دعوتِ اسلامی کے ذمّے دار ہیں بڑے بھائی بھی با عمامہ ہیں۔
دعوتِ اسلامی میں بھاری اکثریَّت غریبوں کی ہے
اگر چِہ کسی صاحِبِ ثَروت یا حامِلِ مَنصب ومنزِلت شخصیّت کی عِیادت یا اُس کے