مریضوں کی عِیادتوں کیلئے گھر وں اور اَسپتالوں میں جانے کے تعلُّق سے میری سستیوں اور کوتاہیوں کے سبب کہیں کوئی مجھ سے ناراض ہو کر سنّتوں بھرے مَدَنی ماحول سے دُور نہ جا پڑے!میرے خیال میں اگر کسی کے ’’سکھ‘‘ میں حصّہ نہ بھی لیا جائے توآدَمی اتناناراض نہیں ہوتا جتنا ’’دُکھ‘‘ یعنی بیماری، پریشانی یا وفات کے مُعامَلات میں ہمدردی نہ کرنے والے سے ناراض ہوتا ہے! اِس ضِمْن میں مَدَنی ماحول ہی کی ایک حِکایت پیش کرتا ہوں،چُنانچِہ
۔۔۔۔۔۔تومیں دعوتِ اسلامی والوں سے دُور ہو گیا
ایک غریب اسلامی بھائی کا قصّہ زیادہ پُرانانہیں، اُنہوں نے (سگِ مدینہعُفِیَ عَنہُ کو ) جوکچھ بتایا وہ اپنے الفاظ میں عرض کرتا ہوں:’’میں برسوں سے مَدَنی ماحول سے وابَستہ تھا،اپنی بِساط بھر دعوتِ اسلامی کاکچھ نہ کچھ مَدَنی کام بھی کرلیا کرتا تھا۔ میں بیمار ہوا، مَرَض نے طول پکڑا حتّٰی کہ صاحِبِ فِراش ہو گیا اور چھ ماہ تک بسترِعَلالت پر پڑا رہا،صدکروڑ افسوس! بیماری کے اُس مکمَّل دَورانیے میں ہمارے شہر کے کسی’’ میٹھے میٹھے اسلامی بھائی ‘‘ کامجھ دُکھیارے کے غریب خانے پر تشریف لاکرعِیادت کرناتوکُجا،کسی نے فون بھی نہ کیا،بلکہ یقین مانئے دلجوئی کیلئے S.M.S. کرنے تک کی کسی نے زَحْمت گوارا نہ فرمائی۔ بِنا بَریں دعوتِ اسلامی والوں سے ایک دم میرا دل ٹوٹ گیا اورمیں ان سے دُور ہو گیا، ہاں ایک نیک دل بندہ جو عَمَلاً دعوتِ اسلامی میں نہیں ہے اُس نے مجھ پر کمال دَرَجہ شفقت کامظاہَرہ کیا،حتّٰی کہ وہ مجھے ڈاکٹروں کے پاس بھی لے جاتارہا ،میرے دل میں اُس کی مَحَبَّت راسِخ ہوگئی اورمیں اُس کے قریب تَرہو گیا۔‘‘