پچھلے سال۔۔۔۔۔(مقام کانام حَذْف کیا ہے) ایک امیرا سلامی بھائی کا بیٹا فوت ہوگیا ، رُکنِ شوریٰ نے اپنا جدول منسوخ کیا اور اس کے جنازے میں شرکت کی ترکیب کی ۔ امیرِاہلسنّت اور نگرانِ شوریٰ سے فون بھی کروائے گئے ، ان کے ختم شریف پر رُکنِ شوریٰ نے بیان بھی کیا ۔
بیرونِ ملک میں ایک غیر مسلم کے پاس کام کرتا ہوں اس نے تین دفعہ فون کیا اور تعزیت کی ۔ میرے پاس جو لوگ تعزیت کے لئے آئے ان میں کونصلر جنرل آف پاکستان اور اس کا عملہ ، ایک سیاسی جماعت کا مقامی صدر،پریس اور وہاں کے مقامی علماء اور بَہُت سے چاہنے والے ۔
کاش! اس مشکل وَقْت میں میری تحریک کے اسلامی بھائی مجھے حوصلہ دیتے اور اپنے رشتے داروں اور اہلِ محلہ کے سامنے میرا بھی بھرم رہ جاتا ، بہرحال یہ احساس ہوا کہ’’اگر میں امیر ہوتا تو ایسا نہ ہوتا ۔‘‘
دنیا تے جو کام نہ آوے اوکھے سوکھے ویلے
اس بے فیض سنگھی کولوں بہتر یار اکیلے
وَالسّلام
سگِ مدینہ کا احساس۔۔۔۔۔کہیں مجھ سے کوئی ناراض نہ ہو جائے۔۔۔۔۔
اسلامی بھائیوں کی خدمتوںمیں ترغیباً عرض ہے کہ مَیل پڑھ کر سگِ مدینہعُفِیَ عَنْہُ کوماضی میں مختلف جنازوں میں نیز تعزیتوں اورعِیادتوں کے لئے جانا یاد آرہا ہے۔ شاید ہی کوئی دعوتِ اسلامی والا ایسا ہو گا جس نے مجھ سے زیادہ عیادتیں کی، جنازے پڑھے اورتدفین میں حِصّہ لیا ہو، مجھے ڈر لگتا تھا کہ کہیں میِّتوں کی تعزیتوں اور