اِترانے کاکوئی حق نہیں پہنچتا کیونکہ سب کچھ اللہ تَعَالٰی کے فضل و کرم سے ہے۔ ( ایضاً ،ص ۸۳۶) یعنی ذِہانت ،علاج کرنے کی صلاحیّت ،خوش الحانی و خوش بیانی وغیرہ کی نعمت وغیرہ جس کو جو کچھ مِلا اُس میں بندے کا اپنا کوئی کمال ہی نہیں جو دیا جتنا دیا سب اللہ تَعَالٰی نے ہی دیاہے۔
خود پسندی کا علاج
حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِیفرماتے ہیں :صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ( مُتَّقی و پرہیز گار اورصِدق واخلاص کے پیکر ہونے کے باوُجُود خدا کے ڈر کے سبب) تمنّا کیا کرتے تھے کہ کاش! وہ مٹّی ، تنکے اور پرندے ہوتے۔(تا کہ بُرے خاتمے اور عذابِ قبر وآخِرت سے بے خوف ہوتے)تو جب صَحابہ کی یہ کیفیت تھی توکوئی صاحِبِ بَصیرت( سمجھدار شخص) کس طرح اپنے عمل پر اِتراسکتا یا ناز کر سکتا ہے اور کس طرح اپنے نَفْس کے مُعامَلے میں بے خوف رہ سکتا ہے! تویہ (یعنی صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا خوف اوران کی عاجِزی ذِہن میں رکھنا) خود پسندی کا علاج ہے اور اِس سے اِس کامادّہ بِالکل جڑ سے اُکھڑجاتا ہے اور جب یہ( یعنی صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکے ڈر نے کا انداز) دل پر غالِب آتاہے تو سلبِ نعمت (یعنی نعمت چِھن جانے) کا خوف اِسے اِترانے( اور خود کو’’ کچھ‘‘ سمجھنے) سے بچاتا ہے بلکہ جب وہ کافِروں اور فاسِقوں کو دیکھتا ہے کہ کسی غَلَطی کے بِغیر ہی جب ان ( یعنی کافِروں ) کو ایمان سے محروم رَہنا پڑا اور اُن (یعنی فاسِقوں) کو اطاعت وفرماں برداری سے ہاتھ دھونا پڑا تو وہ( یعنی صَحابۂ کرام کا خوف یاد رکھنے والا شخص)اپنے حق میں ڈرتے ہوئے یہ