والِد محترم نے بوقتِ وفات دُعا فرمائی: یااللہ عَزَّ وَجَلَّ!میرے بیٹے کو ایسی جگہ عبادت پر لگا کہ شیطان مُداخَلَت نہ کرے ۔ والِدِ مرحوم کی تدفین کے بعد جب میں ساحِلِ سَمُندر پر آیا تو مجھے یہ سَمُندر ی گنبدنظر آیا، میں اس کے اندر داخِل ہوگیا ۔ اتنے میں ایک فِرِشتہ آیا اوراس نے اس گنبدکوسَمُندر کی تہ میں اُتاردیا ۔ سیِّدُناسُلَیمان عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے اِستِفسار (یعنی پوچھنے )پر اُس نے عرض کی کہ میں حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللّٰہ(عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام)کے مقدَّس دَور میں یہاں آیا ہوں ۔ حضرتِ سیِّدُنا سلیمان عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے جان لیا کہ اس کو دو ہزار۲۰۰۰ سال اس’’ سَمُندری گنبد ‘‘میں گزر چکے ہیں مگر اب تک جوان ہے، اُس کا ایک بال بھی سفید نہیں ہوا تھا ۔ غِذا کے متعلِّق اُس نے بتایا: روزانہ ایک سبز پَرَندہ اپنی چونچ میں کوئی زَرد(یعنی پیلی ) چیز لاتا ہے،میں اُسے کھالیتا ہوں ،اس میں دنیا کی تمام نعمتوں کی لَذَّت ہوتی ہے ،اس سے میری بھوک اورپیاس مٹ جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّگرمی ،سردی ، نیند ، سُستی ، غُنُود گی، نامانُوسِیَّت اوروَحشت (یعنی گھبراہٹ وخوف)یہ تمام چیزیں مجھ سے دُور رہتی ہیں ۔ اس کے بعد اُس نوجوان کی خواہِش پر سیِّدُنا سلیمان عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا حکم پاکر حضر تِ سیِّدُنا آصِف بن بَرخِیارَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سَمُندری گنبد کواٹھاکر سمندر کی تہ میں پہنچا دیا۔ اس کے بعد حضرت سیِّدُنا سلیمان عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے فرمایا: اے لوگو !اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ سب پر رحم فرمائے ،دیکھا آپ نے کہ والِدَین کی دعا کس قدر