Brailvi Books

سَمُندری گنبد
20 - 32
 اپنے والِدَین کو بھی گالی دیتا ہے؟ فرمایا: ’’ہاں ، اس کی صورت یہ ہے کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے، وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے، وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔‘‘(مسلم شریف ص۶۰حدیث۱۴۶)یہ حدیثِ پاک نَقل کرنے کے بعد حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں :صَحابۂ کرام( عَلَیْہِمُ الرِّضْوان) جنھوں نے عَرَب کا زمانہ  ٔ جاہلیت دیکھا تھا، ان کی سمجھ میں یہ نہیں آیا کہ اپنے ماں باپ کو کوئی کیوں کر گالی دے گا یعنی (کوئی ماں باپ کو گالی بھی دے سکتا ہے)یہ بات ان کی سمجھ سے باہَر تھی۔حُضُور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) نے بتایا کہ مُراد دوسرے سے گالی دلوانا ہے اور اب وہ زمانہ آیا کہ بعض لوگ(بذاتِ) خود اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتے ہیں اور کچھ لحاظ نہیں کرتے۔(بہارِ شریعت)
 آگ کی شاخوں سے لٹکنے والے
	 حضرتِ سیِّدُنا اِمام احمدبن حَجَرمَکِّی شَافِعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  نَقل کرتے ہیں :   سرورِ کائنات،شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کا فرمانِ عبرت نشان ہے : مِعراج کی راتمیں نے کچھ لوگ دیکھے جو آگ کی شاخوں سے لٹکے ہوئے تھے تو میں نے پوچھا:اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی:اَلَّذِیْنَ یَشْتُمُوْنَ اٰبَاء َہُمْ وَاُمَّہَاتِہِمْ فِی الدُّنْیَا یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے باپوں اور ماؤوں کو بُرا بھلا کہتے تھے۔    ( اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر  ج۲  ص۱۳۹ دارالمعرفۃ بیروت)