بیوی ہمدردی کی حقدار ہوتی ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اعلیٰ حضرت کے مبارَک فتوے سے جہاں ماں کی حیثیت معلوم ہوئی وَہیں بیوی کی اَہمِّیّت (اَہَم۔مِی۔یَت)بھی کُھلی۔ شوہر کو چاہئے کہ بِالخصوص ’’ اُمّید‘‘ یعنی حَمل کے ایّام میں اپنی بیوی پرخُصُوصی شفقت کرے، کام کاج میں اُس کا خوب ہاتھ بٹائے، محنت کا کام نہ لے، ڈانٹ ڈپٹ کر کے یا کسی طرح بھی اُس کے صدمے(TENSION) کا سبب نہ بنے ۔ اَلْغَرَض جتنا بن پڑے اُسے آرام پہنچائے۔ جب کبھی اپنے مَدَنی مُنّے کو پیار کرے تو ساتھ ہی اُس کی ماں پر بھی رحم کی نظر ڈالدے کہ اِ س پُھدَکتے پِھرتے دل کولُبھانے والے ’’کِھلونے ‘‘کی فَراہمی میں اِس بے چاری نے کس قَدَرسَخت تکالیف برداشت کی ہیں ۔
دودھ پلانے کے مسئلے کی وَضاحت
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہکے مبارَک فتوے میں آیتِ کریمہ کے اندر جو ارشادہوا کہ’’ اس کا دودھ چُھڑ انا تیس مہینے میں ہے‘‘ اِس کا تعلُّق دودھ کے رِشتے اور حُرمتِ نِکاح سے ہے۔دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1182 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت‘‘ جلد 2 صَفْحَہ 36پرہے:بچّے کو (ہِجری سن کے حساب سے )دو برس تک دودھ پلایا جائے، اِس سے زیادہ کی اجازت نہیں ، دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی اور یہ جو بعض عوام میں مشہور ہے کہ لڑکی کو دو برس تک اور لڑکے کو ڈھائی برس