اگر عورت کے بجائے مرد کو بچّہ جننا پڑتا تو۔۔۔۔!
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! واقِعی ماں نے اپنے بچّے کیلئے سخت تکلیفیں اُٹھائی ہوتی ہیں ، دردِ زِہ یعنی بچے کی ولادت(DELIVERY) کے وَقت ہونے والے درد کو ماں ہی سمجھ سکتی ہے، مرد کیلئے کس قَدَر آسانی ہے کہ اُسے ڈِلِوری نہیں ہوتی۔ میرے آقااعلیٰ حضرت امامِ اہلِسنّت مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰنفتاوٰی رضویہ جلد 27صَفْحَہ 101 پر فرماتے ہیں : ’’مرد کاتعلُّق صِرف لَذَّت کا ہے اور عورت کو صد ہا مصائب کا سامنا ہے ، نو مہینے پیٹ میں رکھتی ہے کہ چلنا پھرنا،اٹھنا ، بیٹھنا دشوار ہوتا ہے، پھر پیدا ہوتے وقت تو ہر جھٹکے پر موت کاپورا سامنا ہوتا ہے، پھر اَقسام اَقسام کے درد میں نِفاس والی(یعنی ولادت کے بعد آنے والے خون کی تکلیف میں مبتَلا ہونے والی) کی نیند اُڑ جاتی ہے۔ اسی لئے(اللہ تبارَک وتعالیٰ) فرماتا ہے:
حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًاؕ-وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًاؕ- (پ۲۶،الاحقاف:۱۵)
ترجَمۂ کنزالایمان: ا س کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنی اس کو تکلیف سے اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینے میں ہے۔
تو ہر بچّے کی پیدائش میں عورت کو کم از کم تین برس با مَشَقَّت جیل خانہ ہے۔ مرد کے پیٹ سے اگر ایک دَفْعَہ بھی ’’چُوہے کا بچّہ‘‘ پیدا ہوتا تو عمر بھر کو کان پکڑ لیتا۔(فتاویٰ رضویہ ج ۲۷ ص۱۰۱رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور )