مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: یعنی دل بادشاہ ہے جسم اِس کی رِعایا، جیسے بادشاہ کے دُرُست ہوجانے سے تمام مُلْک ٹھیک ہوجاتا ہے ، ایسے ہی دل سنبھل جانے سے تمام جسم ٹھیک ہوجاتا ہے، دل اِرادہ کرتا ہے جسم اس پر عَمَل کی کوشش ، اس لیے صوفیاء کرام دل کی اِصلاح پر بہت زور دیتے ہیں۔(مراٰۃ المناجیح ج۴، ص ۲۳۱)
حُجَّۃُ الْاِسْلام حضرت سیدنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی لکھتے ہیں : تم پر دل کی حفاظت ، اس کی اِصلاح اور اسے دُرُست رکھنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ دل کا معاملہ باقی اَعضاء سے زیادہ خطرناک ہے، اور اس کا اثر باقی اعضاء سے زیادہ ہے۔(مزید لکھتے ہیں)ظاہری اَعمال کا باطنی اَوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اَعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حَسَد، رِیا اور تَکَبُّر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی دُرُست ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی اپنے اَعمال صالحہ کو رب تعالیٰ کا فضل و کرم سمجھے تو ٹھیک ہے اور اگر انہیں اپنا ذاتی کمال تَصَوُّر کرے تو خُودسِتائی (خُد۔سِتا ۔ای)کے باعث وہ اَعمال برباد ہوجاتے ہیں، اس لیے جب تک باطنی اُ مُور کا ظاہری اعمال سے تعلق ، باطنی اوصاف کی ظاہری اعمال میں تاثیر