اوپر دیوار گرا دیں یا اونچی جگہ سے اُس کو اَوندھا کرکے گِرائیں اور اُس پر پتَّھر برسائیں یا اُسے قید میں رکھیں یہاں تک کے مرجائے یا توبہ کرلے ۔ یا چند بار یہ فعلِ بد کیا ہو تو بادشاہِ اسلام اسے قتل کر ڈالے ۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج ۶ ص۴۳، ۴۴)عوام کیلئے اجازت نہیں کہ بیان کردہ سزائیں دیں ، صِرف حاکمِ اسلام دے گا ۔
بد فِعلی کو جائز سمجھنا کیسا؟
دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 692 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’کُفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب‘‘ صَفْحَہ 397 تا398سے دوسُوال جواب مُلا حَظہ فرمایئے :
سُوال : جوبد فِعلی کو جائز سمجھے یا جائز کہے کیا وہ مسلمان ہی رہے گا؟
جواب : نہیں ، وہ کافِر ہو جائیگا ۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : جس نے حرامِ اِجماعیکی حُرمَت کا انکار کیا یا اُس کے حرام ہونے میں شک کیا وہ کافر ہے جیسے شراب(خَمر)، زِنا، لوِاطَت، سُود وغیرہا ۔
(مِنَحُ الرَّوضص ۵۰۳ )
میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولاناشاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ، لوِاطَت کے حلال ہونے کے قائل کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں : حِلِّ لِواطت کا قائل کافِرہے ۔ ( فتاوٰی رضویہ ج ۲۳ ص ۶۹۴)
’’کاش! بد فِعلی جائز ہوتی‘‘ کہنا کُفر ہے
سُوال : اُس شَخص کے لئے کیا حکم ہے جو جائز تو نہ کہے مگریہ تمنّا کر ے کہ کاش! بد فِعلی