Brailvi Books

قوم لوط کی تباہ کاریاں
9 - 45
اوپر دیوار گرا دیں   یا اونچی جگہ سے اُس کو اَوندھا کرکے گِرائیں   اور اُس پر پتَّھر برسائیں   یا اُسے قید میں   رکھیں   یہاں   تک کے مرجائے یا توبہ کرلے ۔  یا چند بار یہ فعلِ بد کیا ہو تو بادشاہِ اسلام اسے قتل کر ڈالے ۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج ۶ ص۴۳، ۴۴)عوام کیلئے اجازت نہیں   کہ بیان کردہ سزائیں   دیں  ، صِرف حاکمِ اسلام دے گا ۔ 
بد فِعلی کو جائز سمجھنا کیسا؟
	دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 692 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’کُفریہ کلمات کے بارے میں   سوال جواب‘‘ صَفْحَہ 397 تا398سے دوسُوال جواب مُلا حَظہ فرمایئے :
 سُوال :  جوبد فِعلی کو جائز سمجھے یا جائز کہے کیا وہ مسلمان ہی رہے گا؟  
جواب : نہیں  ، وہ کافِر ہو جائیگا ۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں   : جس نے حرامِ اِجماعیکی حُرمَت کا انکار کیا یا اُس کے حرام ہونے میں   شک کیا وہ کافر ہے جیسے شراب(خَمر)، زِنا، لوِاطَت، سُود وغیرہا ۔  
  (مِنَحُ الرَّوضص ۵۰۳ )
	میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولاناشاہ  امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ، لوِاطَت کے حلال ہونے کے قائل کے بارے میں   ارشادفرماتے ہیں   : حِلِّ لِواطت کا قائل کافِرہے ۔ ( فتاوٰی رضویہ ج ۲۳ ص ۶۹۴)
’’کاش! بد فِعلی جائز ہوتی‘‘ کہنا کُفر ہے 
سُوال :  اُس شَخص کے لئے کیا حکم ہے جو جائز تو نہ کہے مگریہ تمنّا کر ے کہ کاش! بد فِعلی