اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰)اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآءِؕ-بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ(۸۱)
ترجَمۂ کنزالایمان : کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان میں کسی نے نہ کی ۔ تم تو مَردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورَتیں چھوڑ کر، بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے ۔
حضرتِ سیِّدُنا لوطعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے دنیا و آخِرت کی بھلائی پر مشتمل بیانِ عافیّت نشان کوسُن کر بے حیا قوم نے بجائے سرِتسلیم خم کرنے کے جو بے باکانہ جواب دیا اُسے پارہ 8 سُوْرَۃُ الْاَعْرَافآیت 82میں اِن لفظوں کے ساتھ بیان کیاگیا ہے :
وَ مَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْۚ-اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ(۸۲)
ترجَمۂ کنزالایمان : اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگریِہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزَگی چاہتے ہیں ۔
قومِ لوط پر لرزہ خیز عذاب نازل ہو گیا
جب قومِ لوط کی سرکشی اورخَصلتِ بدفعلی قابلِ ہدایت نہ رہی تو اللہ تَعَالٰی کا عذاب آگیا، چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا جبریل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامچند فرشتوں کے ہمراہ اَمردِ حَسین یعنی خوبصورت لڑکوں کی صورت میں مِہمان بن کرحضرتِ سیِّدُنالوطعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکے پاس پہنچے ۔ ان مہمانوں کے حُسن و جمال اور قوم کی بدکاری کی خصلت کے خیال سے