” آدمعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نافرمانی کی“کہنا کیسا؟
سوال : ” سب سے پہلے حضرتِ آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نافرمانی کی“یہ کہنا کیسا ؟
جواب : تلاوتِ قرآنِ کریم یا قِراءتِ حدیثِ پاک کے سِوا اپنی طرف سے حضرتِ سیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خواہ کسی نبی کو مَعصِیَّت کی طرف منسوب کرنا سخت حرام بلکہ ایک جماعتِ عُلَمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام نے اسے کفر بتایا ۔ چُنانچِہ اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنَّت مولانا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : غیرِتِلاوت میں اپنی طرف سے سَیِّدُنا آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف نافرمانی وگناہ کی نسبت حرام ہے ۔ ائمَّۂ دِین (رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِیْن) نے اس کی تَصریح فرمائی بلکہ ایک جماعتِ عُلَمائے کرام (رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام) نے اسے کفر بتایا ۔ مولیٰ (عَزَّ وَجَلَّ) کو شایاں ہے کہ اپنے محبوب بندوں کو جس عبارت سے تعبیر (یعنی جو چاہے ) فرمائے (مگر) دوسرا کہے تو اُس کی زَبان گُدّی کے پیچھے سے کھینچی جائے ۔ ) لِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰىؕ (پ۱۴ ، النحل : ۶۰) (ترجَمۂ کنز الایمان : ” اللہ (عَزَّوَجَلَّ) کی شان سب سے بلند ۔ “بِلاتشبیہ یوں خیال کرو کہ زید نے اپنے بیٹے عَمرو کو اُس کی کسی لغزِش یا بھول پر مُتَنَبِّہ (یعنی خبر دار) کرنے ، اَدب دینے ، حَزم و عَزم و اِحتیاطِ اَتَم (یعنی آداب و اِحتیاط) سکھانے کے لئے مَثَلاً بیہودہ ، نالائق ، اَحمق ، وغیرہا اَلفاظ سے تعبیر کیا (کہ) باپ کو اِس کا اِختیار تھا ۔ اب کیا عَمرو کا بیٹا بکر یا غُلام خالد انھیں اَلفاظ کو سَنَد بنا کر اپنے باپ اور آقا عَمرو کو یہ اَلفاظ کہہ سکتا