والوں میں ہونے والا فَساد خیر کو کاٹ دیتا ہے ۔ ( 1)
حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک روز سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تشریف فرماتھے ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے تبَسُّم فرمایا ۔ حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی : یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ نے کس لیے تَبَسُّم فرمایا : اِرشاد فرمایا : میرے دو اُمَّتی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بار گاہ میں دو زانُو گر پڑیں گے ، ایک عرض کر ے گا : یااللہ عَزَّوَجَلَّ! اس سے میرااِنصاف دِلا کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا تھا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ مُدَّعی ( یعنی دعویٰ کرنے والے ) سے فرمائے گا : اب یہ بے چارہ ( یعنی جس پر دعویٰ کیا گیا ہے وہ ) کیا کرے اِس کے پاس تو کوئی نیکی باقی نہیں ۔ مَظلُوم ( مُدَّعی ) عرض کریگا : ”میرے گناہ اس کے ذِمّے ڈال د ے ۔ “ اتنا اِرشاد فرما کر سرورِ کائنات، شاہِ موجُودات صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم رو پڑے ، فرمایا : وہ دن بَہُت عظیم دن ہوگا کیونکہ اُس وقت ( یعنی بروزِ قِیامت ) ہر ایک اس بات کا ضَرورت مند ہو گا کہ اس کا بو جھ ہلکا ہو ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ مَظلُوم ( یعنی مُدَّعی ) سے فرمائے گا : دیکھ تیرے سامنے کیا ہے ؟ وہ عرض کرے گا : اے پَروردگار عَزَّوَجَلَّ ! میں اپنے سامنے سونے کے بڑے شہر اور بڑے بڑے مَحلَّات دیکھ رہا ہوں جو
________________________________
1 - ابو داود، کتاب الأدب ، باب فی اصلاح ذات البین، ۴ / ۳۶۵ ، حدیث : ۴۹۱۹ دار احیاء التراث العربی بیروت