جواب : رَقم اُٹھاتے وقت جو نیت تھی اس کے مُطابق حکم ہو گا ۔ (1)اگر خود رَکھنے کے لیے وہ رَقم اُٹھائی تھی تو یہ غَصب کرنا کہلائے گا گویا اس نے یہ رَقم کسی سے چھینی ہے ۔ (2) اس کا حکم یہ ہے کہ مالک کو تلاش کر کے اس تک پہنچائے اپنے اِستعمال میں لانا حرام ہے ۔ آج کل لوگ بالکل خیال نہیں کرتے جہاں کہیں کچھ رَقم وغیرہ پڑی دیکھی فوراً اُٹھا لیتے ہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ اگر اس نیت سے اُٹھائی کہ اس کے مالِک تک پہنچائے گا تو یہ ثواب کا کام ہے لہٰذا اب یہ اس رَقم وغیرہ کو اس کے مالک تک پہنچانے کی اِعلانات وغیرہ کے ذَریعے پوری کوشش کرے ، کوشش کرنے کے باوجود مالِک نہ مِل سکا تو اب اگر خود شَرعی فقیر ہوتو وہ رَقم خود رکھ لے ورنہ کسی شَرعی فقیر یا مسجد و مدرسے میں دے دے ۔ (3)
________________________________
1 - بہارِ شریعت ، جلد 2 صفحہ 473 پر ہے : ”پڑا ہوا مال کہیں ملا اور یہ خیال ہو کہ ميں اس کے مالک کو تلاش کر کے دیدوں گا تو اُٹھا لینا مستحب ہے اور اگر اندیشہ ہو کہ شاید ميں خود ہی رکھ لوں اور مالک کو نہ تلاش کروں تو چھوڑ دینا بہتر ہے اور اگر ظَنِّ غالِب(یعنی غالِب گمان) ہو کہ مالک کو نہ دونگا تو اُٹھانا ناجائز ہے اور اپنے لیے اُٹھانا حرام ہے اور اس صورت ميں بمنزلہ غصب کے ہے (یعنی غصب کرنے کی طرح ہے ) اور اگر یہ ظَنِّ غالِب ہو کہ ميں نہ اُٹھاؤں گا تو یہ چیز ضائع و ہلاک ہو جائے گی تو اُٹھا لینا ضَرور ہے لیکن اگر نہ اُٹھاوے اور ضائع ہو جائے تو اس پر تاوان نہیں۔ لقطہ کو اپنے تَصَرُّف (یعنی اِستعمال)ميں لانے کے ليے اُٹھا یا پھر نادم ہوا کہ مجھے ایسا کرنا نہ چاہیے اور جہاں سے لایا وہیں رکھ آیا تو بَری الذمہ نہ ہوگا یعنی اگر ضائع ہوگیا تو تاوان دینا پڑے گا بلکہ اب اس پر لازم ہے کہ مالک کو تلاش کرے اور اُس کے حوالہ کر دے اور اگر مالک کو دینے کے ليے لایا تھا پھر جہاں سے لایا تھا رکھ آیا تو تاوان نہیں۔ “ مَزید معلومات حاصِل کرنے کے لیے بہارِ شریعت جلد 2 ، حصّہ 10 سے ”لقطہ کا بیان“ کا مُطالعہ کیجیے ۔
2 - فتاویٰ ھندیة ، کتاب اللقطة ، ۲ / ۲۸۹
3 - فتاویٰ رضویہ ، ۲۳ / ۵۶۳ رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیا لاہور