کے یوں سَلام کىا جائے : اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا اَهْلَ الْقُبُوْر! يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ، اَنْتُمْ سَلَفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَ ثَرِ یعنی اے قبر والو! تم پر سلام ہو۔ اللہ تعالىٰ ہمارى اور تمہارى مَغفرت فرمائے ، تم ہم سے پہلے آگئے ہم تمہارے بعد آنے والے ہىں۔ (1)اگر کسى نىک بندے کے مَزار پر جائیں تو انہیں سَلام کرنے کا طریقہ اعلىٰ حضرت عَلَیْہِ رَحْمَۃُرَبِّ الْعِزَّت نے ىہ اِرشاد فرماىا کہ ان کے چہرے کى طرف سے آ کر سَلام کریں کىونکہ پىٹھ کى طرف سے سَلام کیا تو ان کو مُڑ کر دىکھنے کى زَحمت ہو گى لہٰذا قدموں کی طرف سے ہوتا ہوا چہرے کى طرف آئے اور چار ہاتھ یعنی کم و بىش دو مىٹر دور کھڑا ہو کر عرض کرے : اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ يَاسَیِّدِیْ ىعنى اے مىرے آقا!آپ پر سَلام ہو۔ (2)
اللہ پاک چاہے تو بندہ دُور کی آواز بھی سُن لیتا ہے
قبرستان والوں کو سَلام کرتے ہوئے يَا اَهْلَ الْقُبُوْر! کے اَلفاظ تو سب کہتے ہىں لیکن یَارَسُوْلَ اللہ!ىاغوث پاک!ىاغرىب نواز! بولنے پر شىطانی وَساوِس کا شکار ہو جاتے ہیں کہ لفظِ ” يَا “ تو صِرف اللہ کے لیے بولنا چاہىے ۔ ایسے لوگوں کو غور کرنا چاہیے کہ جب عام قبر والوں کو لفظِ ” يَا “ کے ساتھ پکارنا جائز ہے تو پھر اللہ پاک کے مُقَرَّب بندوں کو کیوں نہیں پکارا جا سکتا؟یہاں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ قبرستان والے چونکہ قریب ہیں اِس لیے انہیں پکارا جا رہا ہے جبکہ اَنبیائے
________________________________
1 - ترمذی، کتاب الجنائز، باب ما یقول الرجل اذا دخل المقابر، ۲ / ۳۲۹، حدیث: ۱۰۵۵ دار الفکربیروت
2 - فتاویٰ رضویہ ، ۹ / ۵۲۲ ماخوذاً