مقصد کے لیے کیا تھا ؟ مَرنے کے بعد ہى پتہ چلے گا کہ ہمارے حق مىں کىا فىصلہ ہوتا ہے ؟ اگر معلوم ہے کہ ىہ محفل عام ہے تو وہاں جانے اور کھانے مىں کوئى حرج نہىں ہے ۔ رہی بات ولىمے کی تویہ عام نہىں ہوتا، یوں ہی شادى کے کھانے اور گھروں میں کی جانے والی دَعوتىں بھی عام نہىں ہوتیں، اِن میں مَخصُوص لوگوں کے لىے مَحدُود کھانا پکاىا جاتا ہے لہٰذا ایسی خاص دَعوتوں میں چاہے کھانا مَحدُود ہو یا 100 دیگیں ہوں بغیر بُلائے جانا جائز نہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے : جو کسی کی دَعوت میں بغیر بُلائے گیا تو وہ چور بَن کر گھسا اور غارت گر بن کر نکلا۔ (1) لہٰذا کسى کى دَعوت مىں بِن بُلائے کھانے کے لیے پہنچ جانا گناہ ہے ۔
بغىر بُلائے کسى کی خاص دعوت میں نہىں گھسنا چاہىے مگر اىک تعداد ہے جو چلى جاتى ہے اور کھانا کھا کر دَعوت کرنے والے کی حَق تلفی کرتی ہے ، بعض لوگ تو اِس مُعاملے میں ایسے ماسٹر اور ماہِر ہوتے ہىں کہ خوب ٹىپ ٹاپ کر کے اور مِسٹر بن کر شادى ہالوں مىں جاتے ہىں تاکہ کوئى ان کو روکے نہىں اور لڑکے والے سمجھیں کہ ىہ لڑکى والوں کی طرف سے ہو گا اور لڑکى والے سمجھىں کہ یہ لڑکے والوں کی طرف سے ہو گا اور یوں وہ حرام کھا کر واپس چلے آتے ہیں۔ ایسے لوگ جہنَّم کی آگ پیٹ میں بھر کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو بے وقوف بنا دیا ہے مگر مَرنے کے بعد پتا چلے گا کہ کتنا لوگوں کو بے وقوف بنایا
________________________________
1 - ابوداود، کتاب الاطعمة، باب ما جاء فی اجابة الدعوة، ۳ / ۴۷۹، حدیث: ۳۷۴۱