ہوٹل بن گئے ہیں جہاں پہلے کی طرح مَخصُوص اَنداز میں پکی ہوئی مچھلی نہیں ملتی۔ چونکہ یہ بتانے والے بہت تجربہ کار اسلامی بھائی تھے اس لیے میں نے کہا چلو کوئی بات نہیں مچھلی کے بغیر بھی زندہ رہنا ممکن ہے ۔ جب(صَفَرُ الْمُظَفَّر ۱۴۴۰ ھ میں)میرے بیٹے حاجی عبید رضا مدینۂ پاک زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً حاضِر ہوئے تو انہوں نے میرے پاس وہی پہلے والے مَخصُوص اَنداز پر پکی ہوئی مچھلی بھیجی تو میں نے تَعَجُّب کیا کہ شاید یہ اپنے گھر سے لائے ہوں گے کیونکہ مجھے تجربہ کار اسلامی بھائی بتا چکے تھے کہ اب مدینے شریف میں اس طرح کی مچھلی نہیں ملتی، مگر حاجی عبید رضا نے مجھے یہ پىغام دىا کہ ” مدىنہ شرىف کے قدىم راستے سے ہم گئے تھے تو وہاں ابھى تک وہی پُرانے اَنداز کے ہوٹل باقى ہىں جہاں اِس طرح کى مچھلیاں ملتی ہیں، ہم نے یہ مچھلی بَدر شریف والے قدیم راستے میں موجود ایک ہوٹل سے خریدی تھی۔ “ پتہ چلا کہ تجربہ کار بھی کبھی ٹھوکر کھا جاتا ہے ۔ یوں حج کے موقع پر میں نے اپنے بیٹے حاجی عبید رضا کو مدینہ شریف کی مچھلی کھانے سے متعلق میمنی زبان میں صَوتی پیغام دیا تھا۔
بسااوقات ہماری بھی محفل میں میمنی زبان میں بات چیت ہو جاتی ہے لیکن ہم سب کو اِحتیاط کرنی چاہیے ، چونکہ اپنی زبان میں بات چیت کرنے کی عادت ہوتی ہے اس لیے بعض اوقات اپنی زبان میں بات چیت ہو جاتی ہے ۔ اگر میں اور حاجی عبید رضا محفل کے عِلاوہ آپس میں میمنی زبان میں بات چیت کریں تو