اور اُداسى دُور ہو جائے گى۔ (1)پىارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں جب غم حاضر ہوتا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم بارگاہِ خُداوندى مىں عرض کرتے: یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔ (2)اسے بھی ىاد کر لىں وقتاً فوقتاً پڑھتے رہیں۔ پریشانی دُور ہونے کى ایک دُعا یہ بھی ہے: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم(3) یہ وَظائِف پڑھتے رہیں اِن کی بَرکت سے اللہ پاک پرىشانىوں مىں سے جس پرىشانى کو چاہے گا دُور فرما دے گا۔
خود کو فضول سوچوں سے نکالنے کا طریقہ
سُوال: بعض لوگ اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے اِدھر اُدھر کی سوچوں میں گم رہتے ہیں جس کے باعث ان کے لىے خطرات بڑھ جاتے ہىں اور وہ سڑک پار کرتے ہوئے یا گاڑی چلاتے ہوئے حادثے کا شِکار ہو جاتے ہىں یا سىڑھىوں سے اُترتے ہوئے اُن کے گِرنے کا ڈر ہوتا ہے لہٰذا اگر خُدا ناخواستہ کوئی شخص اِس طرح کی فُضُول سوچوں میں مبتلا ہو جائے تو وہ کس طرح اپنے آپ کو ایسی سوچوں سے نکالے ؟(نگرانِ شُوریٰ کا سُوال)
جواب: جی ہاں! فُضُول سوچوں میں گم رہنے والا طبقہ پایا جاتا ہے ۔ ایسوں کو چاہیے کہ اپنى سوچوں کا رُ خ بدلىں اور اگر دُنىوى سوچوں میں گم ہوں تو آخرت کى سوچىں پىدا کرىں۔ ایسے لوگ اگر کرائے کے مکان مىں رہتے ہوں اور اُن کی ىہ سوچ بنتى ہو کہ اپنا مکان ہو اور وہ بھى عالى شان تو وہ اِس سوچ کے بدلے مدىنے کى ىادوں مىں گُم رہیں اور سبز سبز گنبد کے تَصَوُّر مىں کھوئے رہیں اور اپنی قبر وآخرت کو ىاد کر کے اپنى سوچ کا زاوىہ تبدىل کر دیں ۔ اگر اللہ پاک کی رضا کے لیے اچھى سوچىں رکھیں گے مثلاً آخرت کى ىاد، مدىنے کى ىاد اور کعبہ شرىف کا تَصَوُّر کریں گے تو اِنْ شَآءَ اللّٰہ ثواب ملے گا۔
یہ ذہن بنا لینا کہ ”فُلاں یہ کام نہیں کر پائے گا“بَدگمانی نہیں
سُوال: بعض لوگ اپنى زبان یا اپنى بات کو پورا کرنے مىں عام طور پر ناکام ہوتے ہىں لہٰذا اگر ایسے لوگوں سے کسى کام کى نىت ىا اِرادہ کروا ىا جائے تو وہ کر نہیں پاتے جس کا نتىجہ ىہ نکلتا ہے کہ لوگوں کی اىک تعداد ایسوں کے بارے مىں یہ ذہن بنا
________________________________
1 - خودکشی کا علاج، ص۷۵مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
2 - ترمذی، کتاب الدعوات، باب: ۹۲، ۵/ ۳۱۱، حدیث: ۳۵۳۵ دارالفکر بیروت
3 - الدعاللطبرانی، باب ماجاء فی قول الرجل لاخیہ: جعلنی الله فداک، ص۵۴۶، حدیث: ۱۹۶۱ دار الکتب العلمیة بیروت