کام اىک ساتھ نہیں ہوسکیں گے لہٰذا اِس دَوران کچھ پڑھنے کے بجائے ىکسوئى اور توجہ کے ساتھ بیان اور مَسائل سننے چاہئیں ۔ البتہ جب پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکا ذِکر آئے تو صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکہنے مىں حرج نہىں ہے ۔ یُوں ہی موقع کى مُناسبت سے سُبْحٰنَ اللہ! بھی کہہ سکتے ہیں ۔
داد وتحسین کے لیے سُبْحٰنَ اللہ!کہنا ذِکر نہیں
سُوال : بعض مبلغین حاضرین سے بار بار سُبْحٰنَ اللہ!کہلواتے اور اس پر جَنَّت میں دَرخت لگنے کی بشارت سُناتے ہیں ، کیا یہ دُرُست ہے ؟ (1)
جواب : بعض نادان مبلغىن کہتے ہىں کہ بولو : سُبْحٰنَ اللہ! جَنَّت مىں دَرخت لگے گا ۔ اىسا نہ کہا جائے کیونکہ ىہاں سُبْحٰنَ اللہ!کہلوانا اپنے نفس کے لىے ہوتا ہے مثلا ًبىان کر رہے ہىں اور کوئى لِفٹ نہىں کروا رہا تو کہتے ہیں : بولو : سُبْحٰنَ اللہ ، تو ىہ ذِکر نہىں بلکہ کلمۂ تحسىن ہے جس سے نفس کو مزہ آتا ہے ۔ بعض بولتے ہیں : مَاشَآءَاللّٰہ! کىا بات ہے ! ىہ بھى کلمۂ تحسىن کہلاتا ہے ۔ بہرحال نعت شریف، شِعر یا کوئی اچھی بات سُن کر سُبْحٰنَ اللہ، مَاشَآءَاللّٰہ یا اس جیسے دوسرے اَلفاظ کہنا ذِکر نہىں بلکہ دادوتحسین ہے ۔ (2)ان پر وہ اَحادیثِ مُبارَکہ منطبق کرنا دُرُست نہیں جن میں ذِکر کا ثواب بیان کیا گیا ہے ۔ البتہ اگر کوئی ذِکر کی نیت سے سُبْحٰنَ اللہ وغیرہ کہے ، داد و تحسین مقصود نہ ہو تو اس کے لیے ثواب ہے ۔
کیا بلیوں کے رونے سے آفت آتی ہے ؟
سُوال : بلیاں جب روتى ہىں تو اِس سے کىا ہوتا ہے ؟ (کوئٹہ سے سُوال)
جواب : بلیوں کے رونے سے بَدشگونى نہىں لینی چاہیے ۔ بلیوں کے رونے پر یہ سمجھنا کہ بس کوئى آفت آنے والى ہے ، لہٰذا فُلاں سفر یا فُلاں سودا کىنسل کر دو ورنہ نقصان ہو جائے گا تو حقیقت میں اىسا کچھ بھی نہىں ہے ۔ بلى بھى روتى ہے ، بندہ بھى روتا ہے اور بچے بھى روتے ہىں ۔ اِس سے بدشگونی لینے کے بجائے عبرت حاصِل کرنی چاہیے جیساکہ ایک کتاب مىں
________________________________
1 - یہ سُوال شعبہ فیضانِ مَدَنی مذاکرہ کی طرف سے قائم کیا گیا ہے جبکہ جواب امیرِ اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا عطا فرمودہ ہی ہے ۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ)
2 - شیخ الاسلام امام محمود بن احمد بخاریرَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جس نے تعجب کے اظہار کے اِرادے سے ”سُبْحٰنَ اللہ“ کہا تو وہ تعجب کرنے والا کہلائے گا، ذِکر کرنے والا نہ ہوگا ۔ (محیط برھانی، کتاب الصلاة، الفصل السادس عشر فی التغنی والالحان، ۱ / ۴۴۰، دار احیاء التراث العربی بیروت)