حرام ہے ۔ (1) اگر مچھلی مَری تو پانى میں ہى لىکن طبعى موت سے نہىں بلکہ کسی نے پانی مىں کوئى کىمیکل ڈال دىا جس کی وجہ سے یہ مر گئى ىا دوسرى مچھلى نے اسے کاٹ لىا تو مَر گئی یا کسى نے کانٹا پھىنکا اور کانٹا پھنس گىا اور وہ اس کانٹے کے زخم سے تڑپ تڑپ کر مَر گئى تو ایسی مچھلىاں بھى حلال ہىں ۔ (2)اِسی طرح اگر زندہ مچھلی کو کسی پرندے نے نوچ ڈالا یا زندہ مچھلی کو کوئی پرندہ اُٹھا کر لے گىا اور اُسے نوچتا رہا اور جب اس نے اُسے نیچے پھىنکا تو مَری ہوئی نیچے گرى مگر ىہ پتا ہے کہ پرندے نے زندہ حالت میں اُٹھائى تھى تو اب ىہ مچھلی بھى حلال ہے ۔ یونہی اگر کسی مچھلى نے دوسری زندہ مچھلى نگل لى اور اب اس مچھلى کو پکڑ کر کسى نے کاٹااور اس کے پىٹ سے مَرى ہوئى مچھلى نکلى تو اگر اس کے بدن مىں تبدىلی واقع نہ ہوئی ہو جىسے جسم کا نرم پڑ جانا یا بدبو دار ہو جانا وغیرہ اس طرح کى کوئى علامت کہ جس کے باعث اسے سڑنا کہىں تو یہ بھی حلال ہے اور اگر تبدیلی آ گئی تو اسے کھانا منع ہے ۔ (3) رہی بات یہ کہ مچھلى کے کیا فوائد ہیں؟تو ظاہر ہے مچھلی ایک غِذا ہے ، اگر اسے کھائىں گے تو اس کے فائدے ہى فائدے پائیں گے ، اس سے پىٹ بھرے گا اور طاقت آئے گى ۔ ہمارے ىہاں مچھلی کا سر نہىں کھایا جاتا اور بہت سے لوگ اسے پھىنک دىتے ہىں حالانکہ مچھلی کے سر مىں بڑى طاقت ہوتى ہے ۔
جھینگے کا شرعی حکم
سُوال : جھینگا کھانا کیسا ہے ؟(4)
جواب : یہ قاعدہ تو دُرُست ہے کہ مچھلى کے علاوہ دریا کا ہر جانور حرام ہے مگر جھینگا مچھلى ہے ىا نہىں ؟ اِس بارے مىں عُلَما کا اِختلاف ہے ، بعض عُلَما اسے مچھلى تسلىم نہىں کرتے ۔ صِرف وُہی عُلَما اسے حلال کہتے ہىں جنہوں نے جھىنگے کو مچھلى تسلىم کىا ہے ۔ اعلىٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے جھینگے کے بارے میں تحقیق فرمائى ہے اور اسے مچھلى تسلىم کىا ہے مگر یہ بھی فرمایا ہے کہ جھینگے کے مچھلی ہونے یا نہ ہونے میں عُلَما کا اِختلاف ہے اِس لىے بچنا بہتر ہے ۔ (5) اب اگر
________________________________
1 - درمختار، کتاب الذبائح، ۹ / ۵۱۱
2 - درمختار مع رد المحتار، کتاب الذبائح، ۹ / ۵۱۲ ماخوذاً
3 - محیط برھانی، کتاب الصید، الفصل السابع فی صید السمک، ۶ / ۴۴۹ ماخوذاً
4 - یہ سُوال شعبہ فیضانِ مَدَنی مذاکرہ کی طرف سے قائم کیا گیا ہے جبکہ جواب امیر اہلسنَّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا عطا فرمودہ ہی ہے ۔ (شعبہ فیضانِ مدنی مذاکرہ)
5 - فتاویٰ رضویہ، ۲۰ / ۳۳۹