نے اپنا یہ واقعہ بتایا ۔ یقیناً میرے اِس طرح میل جول کرنے سے میرے خالو پر دعوتِ اسلامى کا اچھا اثر پڑا ہوگا کہ ىہ ہمارا بچہ اچھا ہے کیونکہ مىں تو اپنے خالو کے بچوں کے ساتھ کھىلا ہوا تھا تو یُوں اُن کا بچہ ہی تھا ۔ بعض اوقات اىسے حالات پىش آ جاتے ہىں کہ آپس میں دُورىاں پیدا ہو جاتى ہىں ۔ میرے خالو نے یہ سوچا ہو گا کہ دعوتِ اسلامی اتنی بڑی تحریک ہے اور اس کا ىہ ذِمَّہ دار ہمارے گھر خود چل کر آیا تو دعوتِ اسلامى اچھا کام کر رہى ہے اور اس سے اچھے لوگ وابستہ ہىں ۔
صلح کے لیے خود چل کر جانے میں نقصان نہیں فائدہ ہوتا ہے
صلح کرنے کے لیے خود چل کر جانے میں نقصان نہیں فائدہ ہى ہوتا ہے ۔ آپ جتنے بڑے آدمى ہوں گے اور جتنی زیادہ عاجزى کرىں گے اتنا ہی زىادہ ثواب ملے گا لہٰذا اگر آپ کا خاندان کے کسى بھى فرد سے اىسا مسئلہ ہے تو آپ پہل کیجیے ، اگر آپ پہل کرىں گے تو اِنْ شَآءَ اللّٰہ ثواب بھی زىادہ ملے گا ۔ یاد رَکھیے !بعض اوقات تعلقات توڑنا جائز بھى ہو جاتا ہے جىسے کوئى عقىدے کا مسئلہ ہے اور اس کى وجہ سے تعلقات کو چھوڑا ہے مثلا ً خاندان کا کوئی فرد نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِک مُرتد ہو گیا اور عُلَما نے اسے مُرتد تسلىم کىا ہو نہ کہ آپ نے اپنى مَرضى یا اپنى ناسمجھى سے اُسے مُرتد ٹھہرا لیا ہو تو ایسے شخص سے تعلقات کو ترک کرنا ہو گا ۔ اور اگر ایسا معاملہ نہیں بلکہ محض ذاتی وجوہات کی وجہ سے تعقات توڑ دیئے ہیں اب اگر نَعُوْذُ بِاللہ قطع رحمى(یعنی رِشتہ توڑنے ) کى صورت ہو تو ىہ گناہ ، حرام اور جہنم مىں لے جانے والا کام ہے (1)اور اس صورت میں صِلہ ٔ رحمى واجب ہے ۔ (2)آجکل لوگ بات بات پر رِشتہ داری توڑ دىتے ہىں حالانکہ رِشتہ دارى توڑنا جائز نہىں ۔ رِشتہ داری کا لحاظ تو یہاں تک ہے کہ ناراض رِشتہ دار کو صَدَقہ دىنا زىادہ فضىلت رکھتا ہے ۔ (3)جو رِشتہ دار ہمىں دعوت دے ہم صِرف اسے دعوت دیں اور جو ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرے ہم اسی کے ساتھ اچھا سلوک کرىں تو رشتہ داری کی اِس صورت کو بہارِ شرىعت مىں اَدلا بدلا لکھا ہے ۔ (4) فُلاں اچھا کرے گا تو مىں بھی اس کے ساتھ اچھا کروں گا یہ کوئی کمال
________________________________
1 - الزواجر، الکبیرة الثالثة بعد الثلاثمائة : قطع الرحم، ۲ / ۱۵۵ ماخوذاً دار المعرفة بیروت / جہنم میں لے جانے والے اعمال(مترجم)، ۲ / ۲۸۱ ماخوذاًمکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
2 - بہارِ شریعت، ۳ / ۵۵۸، حصہ : ۱۶
3 - مسند احمد، حدیث ابی ایوب الانصاری، ۹ / ۱۳۸، حدیث : ۲۳۵۸۹ دار الفکر بیروت
4 - بہار شریعت، حصہ ۱۶، ۳ / ۵۵۹