بھائىوں کی اپنے خاندانوں میں مدنی کاموں کی کوششىں ہوتى ہوں گى لیکن عام طور پر دىکھا ىہ جاتا ہے کہ خاندان اور گھر کے جو عاشقانِ رَسول ہوتے ہىں مثلاً بھائی ، والد ، ماں ، بہن وغیرہ ان کے مدنى ماحول مىں آنے کی تعداد کم ہوتی ہے ، اس کى وجہ شاید ىہ بھى ہوسکتى ہے کہ ذِمَّہ دار یا مبلغ اسلامی بھائی خاندان مىں ملنا جلنا کم کرتے ہوں گے تو آپ یہ راہ نمائی فرما دیجیے کہ اس سلسلے میں دعوتِ اسلامی کے اىک مبلغ یا ذِمَّہ دار کو کیا کِردار ادا کرنا چاہیے ؟(نگرانِ شُوریٰ کا سُوال)
جواب : اِس سلسلے میں میرا بہت پُرانا واقعہ کچھ یُوں ہے کہ جب دعوتِ اسلامی کو بنے ہوئے تھوڑے ہی سال ہوئے تھے اور ہمارے ملک کے حالات بھی اچھے تھے جس کے باعث میرے لیے حفاظتی اُمُور کے مَسائل نہیں تھے اور میری حفاظت کے لیے حارسین اور گارڈز وغیرہ بھی میرے ساتھ نہیں ہوا کرتے تھے اُس وقت کچھ خاندانی مَسائل کی وجہ سے میرے گھر والوں کا میری خالہ جان کے گھر آنا جانا موقوف ہو گیا ۔ اپنے گھر کا چھوٹا فَرد ہونے کی وجہ سے اگرچہ میرا ان مَسائل سے کوئی تعلق یا قصور نہیں تھا مگر پھر بھی میں نے ہمت کی اور بقر عید کے دِن اپنی خالہ کے گھر اچانک اکیلا چلا گیا ۔ میرے اِس طرح جانے سے میری خالہ جان کے گھر والے حیرت میں ڈُوب گئے اور چونکہ اس وقت دعوتِ اسلامی بن چکی تھی اور میری کچھ شُہرت ہو چکی تھی لہٰذا میرے خالو نے مجھے بولا : پتا چلا ہے کہ تو بہت بڑا آدمی بن گیا ہے اور چل کر ہمارے گھر آیا ہے ! میں نے کہا : جی ہاں ! میں صلح کرنے کے لیے آیا ہوں ۔ بہرحال اُن سے ملاقات کرنے کے بعد میں اپنے گھر آیا اور اپنی بہن وغیرہ سے کہا کہ موقع اچھا ہے اور میں نے خالہ جان سے صلح کی راہ ہموار کر دی ہے لہٰذا اب تم لوگ بھی جا کر مل آؤ تاکہ ہمارے فاصلے ختم ہو جائیں ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ہمارے گھر سے میری بہن اور میرے بچوں کی امی گئیں اور خالہ جان سے مل آئیں تو اس طرح مُعافی تلافی کی ترکیب بن گئی، تو کسی کو راضی کرنے کے لیے سىنے پر پتھر رکھنا پڑتا ہے کیونکہ جہاں بچپن سے جُدائى ہواور پھر بچہ جوان بلکہ بال بچوں والا ہو جائے اور مُعاشرے میں اس کا نام ہو اور دو چار آدمی اس کے آگے پىچھے گھومنے والے بن جائیں اور وہ اس طرح کسى کے گھر چلا جائے یہ نفس پر بڑا گِراں ہے ۔
ىہ واقعہ بتانے سے پہلے میں نے بہت سوچا کہ بتاؤں یا نہ بتاؤں اور اِس طرح کا ایک سُوال پہلے بھی مجھ سے ہوا تھا مگر اُس وقت میں نے یہ واقعہ نہیں بتایا پھر جب نگرانِ شُوریٰ نے دعوتِ اسلامی کے مبلغین کے حوالے سے بات کی تو میں